Follw Us on:

منہ زور پانی میں ڈوبتی انسانیت اور اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال ریاست

خالد شہزاد فاروقی
خالد شہزاد فاروقی

مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما خواجہ سعد رفیق کی جانب سے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ”ایکس“ پر کی گئی ٹویٹ نظر سے گذری تو دل و دماغ خواجہ صاحب کے لفظوں میں الجھ گیا، ایک نہیں کئی بار میں  نے یہ ٹویٹ پڑھا۔ چند لائنوں کے اس ٹویٹ میں خواجہ سعد رفیق کے الفاظ ”نشتر“ بن کر دل میں کچوکے لگانے لگے۔ اپنے ٹویٹ میں ن لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ”دریائے سوات میں طوفانی لہروں میں گھرے بے یارو مددگار اٹھارہ افراد کا یکے بعد دیگرے بہہ جانا قیامت خیز المیہ ہے، انھیں ڈوبتا دیکھ کر دل ڈوبنے لگتا ہے، اتنی بے چارگی، اتنی بے بسی، اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پیاروں کو ڈوبتے دیکھنا اور اپنی باری کا انتظار کرنا، اتنی اذیت، الامان الامان، المناک سانحات کا تسلسل بڑھتا جا رہا ہے لیکن کسے فرق پڑتا ہے؟

وطن عزیز میں شرف انسانیت کی تذلیل اور انسانی زندگی کی بے وقعتی کے ہولناک واقعات دیکھ کر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ انصاف، آئین، جمہوریت، حقوق ، آزادی اور عوام کے نام پر اقتدار کی بے رحم جنگیں لڑنے والی حکمران اشرافیہ مذمت یا تعزیت تو کرسکتی ہے، انسانی جان، مال اور عزت کے تحفظ کیلئے پائیدارحل تلاش نہیں کر سکتی۔کوئی مانے یہ نہ مانے ! ووٹ کے ذریعے تبدیلی سے عوامی اعتبار اٹھ چکا ہے، ووٹ کے فیصلوں کو بار بار روندا گیا ہے، آئین اور انصاف کی حکمرانی خواب بن چکی، ہمارے پاس اپنے اپنے بت کدوں کے حق میں دلائل اور مدح کے انبار ہیں مگر شرف انسانیت اور انصاف کے تحفظ کیلئے ہم بانجھ پن کا شکار ہیں۔دھکتے آتش فشاں پرسوار اشرافیہ کو معلوم ھونا چاہیے کہ عوامی اضطراب کا لاواپک رہا ہے، خصوصاً نوجوانوں میں حدت اور شدت دن بدن بڑھ رہی ہے، جس دن یہ لاوا پھوٹ پڑا سارا نظام جلا ڈالے گا“۔

خواجہ سعد رفیق کا ٹویٹ پڑھنے کے بعد واقعی یقین کی سرزمین پر مایوسی کے سائے گہرے ہو چلے۔دریائے سوات کی بے رحم موجوں میں ڈوبتے اٹھارہ خواب، اٹھارہ زندگیاں، اٹھارہ آنکھیں جو کسی ساحل کی تلاش میں تکتیں رہ گئیں، اب ہمیشہ کے لیے بند ہو چکیں۔منظرنامہ صرف ایک سانحے کا نہیں، ایک سوال کا ہے۔سوال یہ نہیں کہ وہ کیوں ڈوبے، سوال یہ ہے کہ ہم کب جاگیں گے؟کب ریاست ماں کا روپ دھارے گی؟کب اقتدار کے سنگھاسن سے اتر کر حکمران عوام کے آنسو پونچھیں گے؟خواجہ سعد رفیق کی ٹویٹ میں بیان کی گئی اذیت صرف الفاظ نہیں، ایک چیخ ہے، ایک صداقت ہے، ایک جلا دینے والا احساس ہے۔جو آنکھیں تماش بین بنی رہیں، جو ہاتھ بے حس ہو کر جھولتے رہے، جو زبانیں خاموش رہیں، وہ سب مجرم ہیں۔ یہ قیامت خیز لمحے یکایک نہیں آتے، یہ برسوں کی بے حسی، دہائیوں کی کوتاہی اور صدیوں کی غفلت کے بعد اگتے ہیں۔

ہمارے ہاں ریاستی ڈھانچہ ہر سانحے کے بعد ماتمی بیان دیتا ہے، ایک رسمی تعزیت، ایک دکھاوے کا نوحہ، پھر سب کچھ معمول پر آ جاتا ہے۔نہ کوئی پالیسی، نہ اصلاح، نہ تدبیر۔ہجوم کو قوم بنانے کا عمل کہیں کھو چکا ہے۔انسانی جان کی حرمت لفظوں کی بازی گری بن چکی۔تاریخ میں انسانی جان کی توقیر سے بڑی کوئی ریاستی قدر نہیں رہی۔ سیدنا عمر خطابؓ کے دور میں اگر دجلہ کے کنارے ایک کتا بھی پیاس سے مر جاتا تو خلیفہ خود کو جواب دہ سمجھتے۔آج انسان پانی میں ڈوب رہے ہیں اور حکمران صرف اظہارِ افسوس کر رہے ہیں۔ کہیں کوئی عمر بن خطابؓ نہیں جو کہے کہ”اگر فرات کے کنارے ایک بکری بھی ناحق مر گئی تو میرا گمان ہے کہ روز محشر اللہ تعالی مجھ سے اس کے متعلق پوچھے گا“لیکن پاکستان میں حکمران طبقے  نے اسلامی اصولوں کو مصلحت کی قبر میں دفن کر دیا ہے۔ ان کا ضمیر مر چکا، احساس ناپید اور ریاست خواب بن چکی ہے۔اشرافیہ کا لہجہ بدلا نہیں۔ان کے لیے اقتدار ایک موروثی وراثت ہے اور عوام محض ریٹنگ بڑھانے والے ہندسے۔

انسان ان کے بیانیوں میں تو جیتے ہیں، زمینی حقیقت میں محض اعداد و شمار بن جاتے ہیں۔یہ درد بس انھی دلوں کو چھوتا ہے جن میں انسانیت کی رمق باقی ہو۔سعد رفیق جیسے چند اصحاب کبھی کبھی آئینے تھام لیتے ہیں مگر وہ بھی اپنے گریبان میں جھانکنے سے قاصر رہتے ہیں۔اقتدار کا کھیل دلوں کی بستی اجاڑ چکا۔ووٹ کی حرمت ایک خواب بن چکی ۔جمہوریت اب تاج و تخت کی بازی گری ہے، نہ اس میں عوام کی مرضی پنہاں ہے، نہ ان کے دکھوں کی دوا۔یہ ملک جسے قائد اعظم  نے جمہوری اور فلاحی ریاست کے طور پر پیش کیا تھا، اب اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ۔ادارے، قانون، انصاف، سب ایک مخصوص طبقے کی ڈھال ہیں۔عوام کے لیے فقط سزائیں، توہین، بے توقیری۔ماضی کے آئینے میں دیکھیں تو سانحات کی ایک لمبی قطار دکھائی دیتی ہے۔

مشرف دور کا زلزلہ ہو یا سیلابوں کی تباہ کاری، سانحات کے بعد صرف ایک منظر بار بار دوہرایا گیا، ریاست کی ناکامی۔نظام اتنا ناپائیدار ہو چکا ہے کہ کوئی حادثہ نہیں، ہر دن قیامت کا منظر پیش کرتا ہے۔سرکاری ادارے صرف کاغذی کارروائی کے لیے ہیں،  فلاحی کام این جی اوز کے رحم و کرم پر اور انسانی جان ایک بوجھ سمجھی جاتی ہے۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں زندہ ہیں جہاں المناک خبر سن کر صرف”افسوس“کہا جاتا ہے اور پھر ٹی وی کا چینل بدل دیا جاتا ہے۔سیاست دانوں  نے عوام کو صرف ووٹ کی پرچی تک محدود کر دیا۔اُس پر بھی جب مرضی ہو، انگوٹھا لگا لیا اور جب نہ چاہا تو ٹھپہ بدل دیا۔آئین کی کتاب اب صرف تعزیتی پیغامات کا حوالہ بن چکی۔یہ نظام اب ایک ایسی زنجیر ہے جو نہ تو محفوظ کرتی ہے، نہ انصاف دیتی ہے بلکہ اپنے ہی وزن سے عوام کو کچل رہی ہے۔

خواجہ سعد رفیق کے یہ الفاظ کہ ”جس دن لاوا پھوٹ پڑا، سارا نظام جلا ڈالے گا“، محض شاعری نہیں، پیش گوئی ہے۔ نوجوانوں کے سینوں میں جلتا غصہ، ان کی مایوسی، ان کے دلوں کی بے چینی ایک خاموش طوفان ہے۔ریاست  نے روزگار چھینا، تعلیم مہنگی کی، صحت کو کاروبار بنایا، انصاف کو خواب۔ نوجوانوں کو صرف دو راستے دیے یا ہجرت یا بغاوت۔ آج کا نوجوان نہ اخبار پڑھتا ہے، نہ پارلیمان میں دلچسپی لیتا ہے۔وہ جان چکا کہ ہر پارٹی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔اس کے نزدیک ہر سیاسی جلسہ ایک اور ڈرامہ ہے، ہر منشور ایک اور فریب۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں اسی راکھ میں جلنا ہے؟کیا اس قوم کا مقدر ہمیشہ ماتم رہے گا؟کیا ہم فقط فاتحہ خواں بن کر رہ جائیں گے؟نظام کی اصلاح کا خواب اگر محض شاعری میں دفن کر دیا جائے تو پھر تاریخ وہی کرے گی جو روم کے ساتھ کیا، بغداد کے ساتھ کیا، غرناطہ کے ساتھ کیا۔

ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟صرف سانحات پر ماتم کافی نہیں، ان کے اسباب پر جرح لازم ہے۔ریاست کی ذمہ داری صرف موٹر ویز بنانا نہیں، انسانی جان کی حفاظت ہے۔اگر آج سوات کے دریا میں 13 لوگ مرے تو کل کراچی کے ساحل پر، پرسوں بلوچستان کے ریگستان میں۔ انسانی جان کے تحفظ کے بغیر کوئی ریاست ریاست نہیں، فقط ایک سرزمین ہے جس پر طاقتور قابض ہو چکے۔ اقبالؒ  نے کہا تھا”افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر“مگر یہاں تو افراد ہی تقدیر کے رحم و کرم پر ہیں۔ہر سانحہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ریاست ماں نہیں رہی، سوتیلی بھی نہیں، اب تو درندہ مزاج ہو چکی۔ اب کوئی فلاحی ماڈل نہیں، کوئی ویلفیئر ریاست نہیں، فقط مفادات کی منڈی ہے جہاں عوام کی بولی لگتی ہے۔انصاف ایک خواب ہے، قانون ایک فریب اور آئین فقط اقتدار کے کاغذی سفر کا چارٹ۔

ریاست اگر ماں ہے تو اولاد یتیم کیوں؟اگر جمہوریت ہے تو عوام بے زبان کیوں؟اگر انصاف ہے تو مظلوم بے آسرا کیوں؟یہ سوالات صرف سوات کے دریا کے نہیں، ہر دریا، ہر گلی، ہر محلے، ہر شہر کے ہیں۔ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں آنسو بھی جرم ہیں اور سوال بھی گستاخی۔مگر کوئی ہے جو یہ سوال اٹھاتا ہے، جو چیخ اٹھتا ہے۔ایسے لوگ اگرچہ کم ہیں مگر ان کا ہونا امید کا چراغ ہے۔ سعد رفیق جیسے لوگ اگرچہ خود اس نظام کے پروردہ ہیں مگر سچ بولنا بہادری ہے، چاہے دیر سے ہی کیوں نہ ہو۔ اب لازم ہے کہ ہم ہر سانحے پر فقط آنکھ نم نہ کریں، زبان بھی کھولیں، قلم بھی اٹھائیں اور قدم بھی بڑھائیں۔یہ قوم مزید جنازے نہیں اٹھا سکتی، یہ نظام مزید لاشیں نہیں سہہ سکتا۔اگر لاوا پھٹ پڑا تو تاریخ لکھی جائے گی مگر شاید لکھنے والے ہاتھ باقی نہ رہیں۔ آئیے، اس سے پہلے کہ ہر دل سوات کے دریا میں ڈوب جائے، ہم جاگ جائیں، سوچیں، بولیں اور بدل ڈالیں۔ورنہ کل کوئی اور ٹویٹ کرے گا، کسی اور سانحے پر اور ہم پھر ”افسوس“ کہہ کر آگے بڑھ جائیں گے۔

نوٹ : یہ تحریر لکھاری کی ذاتی رائے پر مبنی ہے اور ادارے کا رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ ایڈیٹر

Author

سینئر صحافی، کالم نگار اور بلاگر ہیں، پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔

خالد شہزاد فاروقی

خالد شہزاد فاروقی

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس