Follw Us on:

پاکپتن: بچوں کی اموات کیسے ہوئیں؟ پرانی تحقیقات مسترد، نئی کمیٹی تشکیل

مادھو لعل
مادھو لعل
Pakpattan
واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کمشنر ساہیوال نے 3 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ (فوٹو: فیسبک)

پاکپتن کے ڈسٹرکٹ اسپتال میں ایک ہی ہفتے کے دوران 20 بچوں کی ہلاکت کے سنگین معاملے پر ڈپٹی کمشنر پاکپتن ماریہ طارق نے حقائق سامنے لانے کے لیے آزادانہ تحقیقات کرانے کا فیصلہ کر لیا۔

نجی نشریاتی ادارے اے جی این نیوز پر واقعہ کی رپورٹ نشر ہونے کے بعد اسپتال میں کام کرنے والے پانچ افراد کو سرنڈر کر دیا گیا۔ مگر ڈپٹی کمشنر نے اسپتال عملے پر مشتمل داخلی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کو متعصب اور یکطرفہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کمیٹی کا مقصد صرف طبی عملے کو بچانا تھا۔

ڈی سی پاکپتن نے واقعے کی شفاف تحقیقات کے لیے کمشنر ساہیوال کو درخواست دی، جس پر فوری ایکشن لیتے ہوئے آزادانہ تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔

کمیٹی میں شامل ارکان میں ڈاکٹر مزمل عرفان حیات (اے ایم ایس، ساہیوال ٹیچنگ اسپتال)، ڈاکٹر جویریہ سعید (سینئر رجسٹرار)، احمر بلال (بائیو میڈیکل انجینئر) شامل ہیں۔

واضح رہے کہ یہ کمیٹی پانچ دن کے اندر واقعے کی مکمل چھان بین کر کے ذمہ داران کا تعین کرے گی اور اپنی رپورٹ جمع کروائے گی۔

ذرائع کے مطابق واقعہ نے عوامی حلقوں میں شدید تشویش پیدا کر دی ہے، جب کہ متاثرہ بچوں کے والدین انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ ابتدائی طور پر 7 بچوں کی ہلاکت کی اطلاع سامنے آئی تھی، مگر بعد میں ہونے والی تحقیقات میں ہلاکتوں کی اصل تعداد 20 نکلی، جن میں 15 نومولود بچے شامل ہیں۔

16 سے 22 جون کے درمیان چلڈرن وارڈ میں پیش آنے والے ان افسوسناک واقعات کی تفصیلات نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق ایک ہی رات میں پانچ بچوں کی اموات ہوئیں، لیکن حیران کن طور پر اسپتال کے اندرونی عملے پر مشتمل انکوائری کمیٹی نے تمام ہلاکتوں کو “طبعی اموات” قرار دیتے ہوئے معاملے کو معمول کا واقعہ قرار دیا۔

ورثا نے اسپتال انتظامیہ پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں، جن میں آکسیجن سلنڈرز کی کمی، ڈاکٹروں کی غیر موجودگی اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی لاپرواہی شامل ہیں۔ ورثاء نے ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف پر غفلت برتنے اور آکسیجن سلنڈرز کی کمی جیسے سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔

Details
اس سال صوبے کے مختلف اسپتالوں میں 56 بچے طبی عملے کی مبینہ لاپرواہی کے باعث جاں بحق ہو چکے ہیں۔ (فوٹو: پاکستان میٹرز)

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس سال صوبے کے مختلف اسپتالوں میں 56 بچے طبی عملے کی مبینہ لاپرواہی کے باعث جاں بحق ہو چکے ہیں۔

مادھو لعل

مادھو لعل

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس