پاکستان میں مون سون کا آغاز اس سال معمول سے کچھ دن پہلے ہوا اور ساتھ ہی ملک کے کئی حصوں میں بے وقت کی بارشیں اور اچانک سیلابی ریلے معمولاتِ زندگی کو درہم برہم کر گئے۔ 26 جون سے اب تک ملک بھر میں بارش اور آندھی سے جڑے حادثات میں 50 سے زائد افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو چکے ہیں۔
محکمہ موسمیات اور نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر نے 29 جون سے پانچ جولائی کے درمیان مزید شدید بارشوں اور ممکنہ شہری سیلاب کی پیش گوئی کی ہے۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ 21 اموات ریکارڈ کی گئی ہیں، جن میں سوات کے ایک ہی خاندان کے 11 افراد بھی شامل ہیں۔
ریسکیو اداروں کے مطابق پنجاب میں 24 افراد کی جانیں جا چکی ہیں، جب کہ سندھ میں 7 اور بلوچستان میں 4 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد، کراچی، پشاور سمیت متعدد بڑے شہروں میں شہری سیلاب، گلیوں میں پانی کی نکاسی میں رکاوٹ اور بجلی کی بندش معمول بن چکی ہے۔
موسم کے اس غیر متوقع رویے نے ماحولیاتی ماہرین کو ایک بار پھر خبردار کر دیا ہے۔ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے شعبہ ماحولیاتی سائنس میں تدریس سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر سجاد حنیف، جو آب و ہوا اور فضائی نظام کے ماہر ہیں، نے پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ برصغیر میں موسم کے پیٹرن اب مسلسل غیر یقینی ہوتے جا رہے ہیں۔
ان کے مطابق مون سون کی بارشیں پہلے کے مقابلے میں جلد اور زیادہ شدت کے ساتھ آ رہی ہیں اور گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار بھی معمول سے تیز ہو گئی ہے، جس کے اثرات بالائی علاقوں سے لے کر میدانی شہروں تک محسوس کیے جا رہے ہیں۔
ڈاکٹر سجاد کے مطابق شدید گرمی، زمین کی سطح کا درجہ حرارت بڑھنے اور سمندری ہواؤں کے دباؤ میں رد و بدل کے باعث فضا میں نمی کا ارتکاز بڑھا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بارش کا ہر اسپیل، جو پہلے چند گھنٹوں میں ہلکی بارش کی صورت میں مکمل ہوتا تھا، اب تیز اور مختصر وقفوں میں شدید بارش کے ساتھ برستا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان غیر معمولی بارشوں سے ندی نالوں میں طغیانی، لینڈ سلائیڈنگ اور فلیش فلڈز کا خطرہ پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ گلیات، مری، ایبٹ آباد، کشمیر اور گلگت بلتستان جیسے سیاحتی مقامات پر سیاحوں کو خاص احتیاط کرنی چاہیے۔ پہاڑی ندی نالے اور چشمے بظاہر پرسکون لگتے ہیں لیکن بالائی علاقوں میں ہونے والی بارش چند گھنٹوں کے وقفے سے تیزی سے نیچے آتی ہے اور پانی کی سطح میں اچانک اضافہ کر سکتی ہے۔
اگر محکمہ موسمیات اور سیاحت کے ادارے مل کر ایک مربوط وارننگ سسٹم تیار کریں تو قیمتی جانوں کو بچایا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر سجاد کے مطابق شہری علاقوں میں اربن فلڈنگ کا خطرہ محض قدرتی نہیں بلکہ انتظامی ناکامی بھی ہے۔ نالوں کی صفائی، نکاسی آب کے نظام کی بہتری اور موسمیاتی انتباہات پر فوری ردِعمل نہ ہونے کی وجہ سے شہری بارش کے بعد گھنٹوں پانی میں گھرے رہتے ہیں۔
واضح رہے کہ اگر ضلعی سطح پر ایمرجنسی یونٹس کو جدید آلات اور مقامی تربیت کے ساتھ تیار کیا جائے تو کئی مسائل پر وقت سے پہلے قابو پایا جا سکتا ہے۔
رواں برس بارشوں کے آغاز نے ثابت کیا ہے کہ اب مون سون کے لیے طے شدہ کیلنڈر ناقابل بھروسا ہو چکا ہے۔ غیر متوقع موسم، بڑھتی ہوئی شدت اور پگھلتے گلیشیئرز پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے ایک مسلسل خطرہ بن چکے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر فوری اور طویل مدتی حکمت عملی وضع نہ کی گئی تو یہ سلسلہ ہر سال جان و مال کے نقصان کے ساتھ دہرایا جاتا رہے گا۔
لاہور کے ایک شہری طلال پاشا نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب بارش کا موسم راحت نہیں پریشانی بن گیا ہے۔ کبھی دفتر وقت پر نہیں پہنچ پاتے، کبھی بچے پانی میں پھسل کر زخمی ہو جاتے ہیں۔ بارش سے پہلے ہی دل میں خوف آ جاتا ہے کہ بجلی چلی جائے گی، سڑکیں بند ہو جائیں گی اور گلیوں میں پانی بھر جائے گا۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں معیشت پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے، وہاں بدلتا موسم عام شہری کے لیے مزید مشکلات لا رہا ہے۔ ماہرین اور متاثرہ افراد دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اب بھی سنجیدہ منصوبہ بندی نہ ہوئی تو ہر سال کا مون سون خطرے کی گھنٹی بجاتا رہے گا۔ حکومت اور اداروں کو صرف وارننگز جاری کرنے کے بجائے عملی اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ لوگوں کی زندگیاں محفوظ رہ سکیں۔