یہ کیسی ریاست ہے،جس میں وطن کو ماں کہنے والے بچے روز اس کی چھاتی پر تلوار چلاتے ہیں؟یہ کیسا نظام ہے جہاں حکمران عوام کی نبض پہ ہاتھ رکھنے کی بجائے ان کی شہ رگ پہ چھری رکھ کر کہتے ہیں “صبر کرو،یہ سب تمہارے بھلے کے لیے ہے” ۔ مہینوں سے نہ روٹی کی قیمت تھمی، نہ بجلی کے بلوں کا جن قابو میں آیا اور اب ایک بار پھر پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں ایسا اضافہ کیا گیا ہے گویا ایندھن نہیں،عوام کی سانسیں نچوڑی جا رہی ہوں۔۔۔۔
آٹھ روپے چھتیس پیسے فی لٹر پیٹرول مہنگا ہوا، دس روپے انتالیس پیسے ڈیزل کی قیمت میں اضافہ اور دلیل؟عالمی منڈی میں وقتی اضافہ حالانکہ وہ قیمتیں دوبارہ نیچے آ چکی ہیں۔۔۔۔۔گویا حکومت کے وزراء کی عقل عالمی منڈی سے بھی سست رفتار ہے۔۔۔۔۔جب قیمتیں بڑھیں تو فوراً عوام پر بوجھ ڈالو اور جب کم ہوں تو خزانے بھرنے کے لیے خاموشی اختیار کرو۔۔۔۔۔۔ایسے میں کیا یہ سوال نہیں اٹھتا کہ حکومت کا کام ریلیف دینا ہے یا رعایا کو زخم دینا؟یہ پاکستان ہے۔
یہاں مہنگائی کا گراف انسانی صبر کی بلند ترین چوٹی سے بھی اوپر جا چکا ہے۔۔۔۔۔ہر تنخواہ دار طبقے کا بجٹ اس طرح تباہ ہو چکا ہے جیسے کوئی زلزلہ جھونپڑیوں کو روند کر رکھ دیتا ہے۔۔۔۔۔ہر مہینہ بجلی کا بل ایک بم کی صورت ڈاک سے موصول ہوتا ہے،جسے کھولتے ہی گھر کا سکون جلنے لگتا ہے۔۔۔۔۔
غریب باپ بچوں کو سمجھاتا ہے کہ لائٹ کم جلاؤ،پنکھا بند کرو اور ماں چپکے سے گیس کے بل پر ہاتھ رکھ کردعا کرتی ہے کہ شاید کسی دن اللہ رحم کرے اور حکمرانوں کے دل نرم ہو جائیں لیکن یہ دل کب نرم ہوتے ہیں؟
جن کو اے سی کی ٹھنڈک میسر ہو،جن کی گاڑیوں کے فیول ٹینک سرکاری خزانے سے بھرتے ہوں،جن کے بچوں کے سکول لندن اور یونیورسٹی واشنگٹن میں ہوں،وہ کیسے جانیں کہ لاہور کی گلیوں میں فٹ پاتھ پر بیٹھا ریڑھی والا صرف دو لیٹر پیٹرول ڈال کر سارا دن کس امید پر کام کرتا ہے؟وہ کسان جس کا ٹریکٹر ڈیزل نہ ہونے کے باعث کھیت کے بیچ کھڑا ہے،وہ ماں جو چولہے کے نیچے جلانے کو لکڑیاں جمع کرتی ہے،وہ معذور جو رکشے میں بیٹھنے سے پہلے کرایہ سوچتا ہے ان سب کے دل میں ایک ہی سوال ہے،ہمارا گناہ کیا ہے؟یہ سوال حکومت کے ہر بیان،ہر پالیسی،ہر تقریر سے ٹکرا کر لوٹ آتا ہے۔۔۔۔۔
کبھی جواب ملتا ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے مجبُور بندے ہیں،کبھی کہا جاتا ہے کہ پچھلی حکومت کی تباہی کا ملبہ ہم اٹھا رہے ہیں لیکن عوام تو ہر حکومت کے ماتحت رہے،وہ تو ہر بار قربانی کا بکرا بنتے آئے ہیں۔۔۔۔اب تو حال یہ ہے کہ لوگ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو بجلی کے بل جلانے کے طریقے سکھا رہے ہیں،کوئی موم بتی جلا کر احتجاج کر رہا ہے تو کوئی چولہا باہر سڑک پر رکھ کر اپنا درد بیان کر رہا ہے۔۔۔۔۔
یہ وہ ملک ہے جہاں اب احتجاج کرنے کے لیے انسان کو شاعر بننا پڑتا ہے کیونکہ سیدھی بات کرنے والے یا تو لاپتہ ہو جاتے ہیں یا غداری کے مرتکب قرار پاتے ہیں۔۔۔۔۔پیٹرول کی قیمت میں ہر بار اضافے کا مطلب صرف گاڑی چلانے والوں پر بوجھ نہیں بلکہ ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے۔۔۔۔آٹا، دال، چینی، سبزی، ٹرانسپورٹ،سب کچھ مہنگا ہوتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تنخواہ وہی،خرچ دگنا،امید آدھی اور صبر ختم۔۔۔۔عوام اب صرف زندہ نہیں بلکہ اذیت میں سانس لے رہے ہیں۔۔۔۔اس ملک میں رہنے والا ہر عام شہری ایک زندہ لاش بن چکا ہے۔۔۔۔صبح اٹھتا ہے تو سب سے پہلے بجلی کا یونٹ چیک کرتا ہے کہ کتنے یونٹ جلائے،کتنی سزا ملے گی۔۔۔۔پھر بچوں کے سکول بیگ میں کتابوں کے ساتھ ساتھ دعا بھی رکھ دیتا ہے کہ شاید اس مہینے فیس بڑھنے کا نوٹس نہ آئے۔۔۔۔
مزید پڑھیں: منہ زور پانی میں ڈوبتی انسانیت اور اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال ریاست
ریڑھی والا،مزدور،ٹیچر،کلرک،سب پریشان اور جو پریشان نہیں،وہ یا تو حکومتی بینچوں پر بیٹھا ہے یا اقتدار کی نگری میں خوابوں کے محل بنا رہا ہے۔۔۔۔۔عجیب تماشا ہے کہ جس ملک کی 75 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے،وہاں کے حکمران کہتے ہیں۔ “قوم کو قربانی دینی ہو گی”۔۔۔۔
قربانی؟وہ قوم جو ہر دن اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو پلاتی ہے،جو ہر شام گیس کے پریشر سے لڑتی ہے،جو ہر مہینہ بجلی کے بل پر گالیاں دیتی ہے،وہ اور کتنی قربانی دے؟کیا کبھی کسی وزیر نے اپنی تنخواہ میں کمی کی؟کیا کبھی کسی ایم این اے نے اپنے ٹی اے ڈی اے سے ہاتھ کھینچا؟کیا کبھی کسی افسر نے کہا کہ میں سرکاری گاڑی نہیں لوں گا؟
نہیں۔۔۔کیوں کہ یہ قربانیاں صرف عام آدمی کے لیے مخصوص ہیں۔۔۔جب بھی قیمتیں بڑھتی ہیں،وزراء اور مشیر صفائیاں دینے آ جاتے ہیں کہ “عالمی مارکیٹ میں اضافہ ہو گیا تھا”، “ہماری مجبوری ہے”، “معیشت بہتر ہو رہی ہے”یہ سب سن سن کر اب عوام کے کان پک چکے ہیں۔۔۔۔۔اگر عالمی منڈی میں کمی ہو جائے تو پھر کمی کا ریلیف کیوں نہیں ملتا؟اگر معیشت بہتر ہو رہی ہے تو پھر عوام بدتر کیوں ہو رہے ہیں؟اگر مجبوری ہے تو اقتدار چھوڑو،وہ کسی اور کو دے دو جو اس مجبوری کو عوام کے لیے آسانی میں بدل دے۔۔۔
۔یہ نظام کب بدلے گا؟جب عوام کے سروں پر برداشت کا آخری پتھر بھی گر جائے گا؟جب کوئی ماں بچوں سمیت نہر میں کود جائے گی؟جب کوئی باپ خود کو آگ لگا کر سرکاری دفتر کے باہر چیخے گا؟یا جب کسی بزرگ کے ہاتھ میں بل دے کر کہا جائے گا کہ یا دوا خرید لو یا بجلی کا بل جمع کراؤ؟اگر اس مقام پر آ کر بھی حکمرانوں کے دل نہ پگھلے تو یہ نظام انسانوں کا نہیں،درندوں کا ہے۔۔۔پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھا کر صرف ایندھن نہیں،قوم کی اُمید جلائی گئی ہے اور اس راکھ میں سے اب کچھ بھی اگنے کی گنجائش باقی نہیں۔۔۔۔اگر حکمران سمجھتے ہیں کہ وہ IMF کو خوش رکھ کر تاریخ میں کامیاب رہیں گے تو وہ بھول میں ہیں۔۔۔۔
تاریخ صرف ان کو یاد رکھتی ہے جو قوم کے ساتھ کھڑے ہوں،نہ کہ ان کو جو قوم کے کندھوں پر چڑھ کر اقتدار کی سیڑھیاں چڑھیں۔۔۔۔ایسے میں میڈیا کا کردار بھی سوالیہ نشان بن چکا ہے۔۔۔۔۔بیشتر چینل پیٹرول کی قیمت میں اضافے پر یا تو خاموش رہتے ہیں یا حکومتی وزراء کو بولنے کا موقع دیتے ہیں جو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے عوام کی تکلیف کو جھوٹی تسلیوں سے سلاتے ہیں۔۔۔۔کون ہے جو عوام کی سچائی بیان کرے؟کون ہے جو کہے کہ تمہاری پالیسیاں ناکام ہو چکی ہیں؟کون ہے جو عدلیہ سے سوال کرے کہ کیا ریاست کی ذمہ داری صرف اشرافیہ کی حفاظت ہے یا عوام کو ریلیف دینا بھی کسی آئینی شق کا حصہ ہے؟
یہ بھی پڑھیں: بے وقت کی بارشیں اور سیلاب کی تباہ کاریاں، موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے حکومتی منصوبہ بندی کہاں ہے؟
یہ سب سوال آج ہر پاکستانی کے دل میں ہیں اور ہر دل،زخم زخم ہے لیکن ان زخموں پر مرہم رکھنے والا کوئی نہیں۔۔۔اس ملک میں صرف وعدے رہ گئے ہیں،روٹی،کپڑا،مکان، نصاف،تعلیم، صحت،سب صرف منشور کی کتابوں میں،دیواروں پر چسپاں نعرے بن چکے ہیں۔۔۔۔۔عملی زندگی میں عوام فقط دھوکہ کھاتے ہیں اور ہر بار ایک نیا جُھوٹ سچ کے لبادے میں ان پر تھوپ دیا جاتا ہے۔۔۔۔کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ حکومت اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرے؟کیا یہ ضروری ہے کہ ہر بوجھ عوام پر ہی ڈالا جائے؟کیا بجٹ خسارے کو پورا کرنے کا واحد حل پیٹرول اور بجلی مہنگی کرنا ہے؟کیوں نہ حکمران طبقے کے اللوں تللوں پر پابندی لگائی جائے؟کیوں نہ غیر ترقیاتی اخراجات کم کیے جائیں؟کیوں نہ بیرون ملک علاج اور دورے بند کیے جائیں؟لیکن افسوس،یہ سب اقدامات عوام کے لیے ہوتے ہیں،حکمرانوں کے لیے نہیں۔۔۔۔
اگر یہ حالات یوں ہی رہے تو خوف ہے کہ قوم احتجاج کی اس سطح پر آ جائے گی جہاں صرف الفاظ نہیں،عمل بولے گا اور جب عوام کا غصہ بولتا ہے تو نہ قصرِ اقتدار سلامت رہتے ہیں نہ تخت و تاج۔۔۔۔۔تاریخ کے صفحات چیخ چیخ کر بتاتے ہیں کہ ظلم جتنا بھی مضبوط ہو،عوامی طوفان اسے بہا لے جاتا ہے لہٰذا اگر اب بھی وقت ہے تو حکمران ہوش کریں۔۔۔۔
پٹرول کی قیمت میں کمی کریں،بجلی اور گیس کے نرخ کم کریں،گیس کی فراہمی کو ممکن بنائیں،بنیادی ضروریات کو عام آدمی کی دسترس میں لائیں ورنہ وہ دن دور نہیں جب عوام صرف احتجاج نہیں،انقلاب کے لیے نکلیں گے اور پھر نہ مہلت ہو گی،نہ معافی۔۔۔۔۔
نوٹ: بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ ایڈیٹر
Author
-
سینئر صحافی، کالم نگار اور بلاگر ہیں، پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔
View all posts