Follw Us on:

ضلعی استپال پاکپتن: ’جہاں بچے کی پیدائش پر مٹھائی لے کر آتے ہیں، مگر کفن خرید کرواپس جاتے ہیں‘

عاصم ارشاد
عاصم ارشاد
Whatsapp image 2025 07 01 at 11.38.42 pm
تمام بچے پہلے ہی تشویشناک حالت میں اسپتال لائے گئے تھے۔ (فوٹو: فائل)

زندگی جیسے تھم گئی ہو، وقت جیسے رُک گیا ہو  اور کچھ مائیں اپنے بچوں کو صرف اس امید پر دیکھتی رہیں کہ شاید اگلی سانس آ جائے۔ مائیں اپنے بچوں کو سینے سے لگا کر سلا رہی تھیں  پاکپتن کے ضلعی اسپتال میں کچھ مائیں ایسی تھیں جنہوں نے اپنے نومولود بچوں کو آخری بار سانس لیتے ہوئے نہیں بلکہ سانس کے لیے تڑپتے ہوئے دیکھا ۔

یہ وہ بچے تھے جنہوں نے ابھی دنیا کو دیکھنا بھی نہ سیکھا تھا۔ جنہوں نے ابھی ٹھیک سے آنکھیں تک نہ کھولی تھیں،  ماں کے لمس کو پوری طرح محسوس نہیں کیا تھا۔ مگر وہ سب صرف چند گھنٹوں کے اندر خاموش ہو گئے۔ ان کے ننھے سے وارڈ میں نہ کوئی رونے کی آواز رہی نہ کسی مشین کی بیپ اور نہ ہی کسی ڈاکٹر کی بھاگ دوڑ،  بس تھا تو صرف سناٹا  اور سسکیاں۔

ان ماؤں کو نہیں معلوم تھا کہ اسپتال میں آکسیجن کم ہے۔ انہیں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ عملہ رات کی شفٹ میں ادھورا ہے اور جن ہاتھوں نے سلنڈر بدلنے تھے، وہ کہیں دور تھے۔ ان کے لیے یہ ایک ہسپتال تھا   امید کا آخری مرکز۔ مگر جس دروازے سے وہ اپنے بچوں کو لے کر آئیں، اسی دروازے سے انہیں لپیٹ کر باہر لے جایا گیا۔

کسی رپورٹ میں یہ نہیں لکھا کہ اُس ماں کی گود خالی ہو گئی جو پچھلے نو مہینے صرف اپنے بچے کی سانسیں سننے کے خواب دیکھتی رہی۔ کسی فائل میں یہ درج نہیں کہ ایک باپ کیسے خاموش کھڑا رہا جب ڈاکٹر نے صرف اتنا کہا کہ ہم کچھ نہیں کر سکے۔

پاکپتن اسپتال سانحہ: آکسیجن کی عدم فراہمی سے بیس بچوں کی ہلاکت، ذمہ دار کون؟

پنجاب کے ضلع پاکپتن کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں چند دنوں کے دوران بیس بچوں کی ہلاکت نے عوامی اور حکومتی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ ان ہلاکتوں میں پندرہ نوزائیدہ بچے شامل تھے، جب کہ باقی پانچ بچوں کی عمریں ایک دن سے لے کر پانچ سال تک تھیں۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق ان اموات کی بنیادی وجہ اسپتال میں آکسیجن کی مبینہ قلت اور عملے کی غفلت قرار دی جا رہی ہے۔ یہ تمام اموات 16 سے 22 جون کے درمیانی عرصے میں ہوئیں، جن میں 19 جون کی رات سب سے زیادہ افسوسناک ثابت ہوئی، جب پانچ بچے ایک ہی رات میں انتقال کر گئے۔ اس واقعے نے علاقے میں کہرام مچا دیا۔

ورثا نے اسپتال کے باہر شدید احتجاج کیا اور ڈاکٹروں و انتظامیہ پر سنگین الزامات عائد کیے۔ والدین کا کہنا ہے کہ اسپتال میں نہ تو نرسیں موجود تھیں اور نہ ہی آکسیجن سلنڈر وقت پر بدلے گئے، جس کی وجہ سے اُن کے بچے جانبر نہ ہو سکے۔

میری بیٹی سانس لے رہی تھی، پھر تڑپنے لگی  اور ہسپتال خاموش تماشائی تھا”  منہاج فاطمہ کے والد کی دہائی

سانحہ پاکپتن کے متاثرین میں شامل علی حیدر قادری نے، جن کی نومولود بیٹی منہاج فاطمہ بھی ان 20 بچوں میں شامل تھی جنہوں نے جان گنوائی، اپنی روداد بیان کرتے ہوئے آنکھوں میں آنسو اور لہجے میں کرب لیے بتایا کہ”18 جون کو میں اپنی بیٹی کو محض چیک اپ کے لیے ڈی ایچ کیو ہسپتال پاکپتن لے کر گیا تھا۔

مگر ڈاکٹروں نے کہا کہ اسے ایڈمٹ کر لیں  کچھ دیر کے لیے آکسیجن لگی، پھر اچانک اکسیجن کی فراہمی بند ہو گئی۔ میں وارڈ میں بھاگتا رہا، عملے کو ڈھونڈتا رہا، کوئی مدد کو تیار نہ تھا۔ سب کہہ رہے تھے کہ جس کی ڈیوٹی ہے اسے تلاش کرو’ کیا مریض کے لواحقین اسپتال کے عملے کو تلاش کریں گے؟

انہوں نے بتایا کہ آکسیجن کی فراہمی ایک دن میں چار سے پانچ مرتبہ بند ہوئی۔ اس دوران کئی بچوں کی حالت بگڑ گئی، کچھ کی موت واقع ہو گئی۔ وہ احتجاج کرتے رہے، ایم ایس سے ملنے کی کوشش کی مگر سکیورٹی نے کمرے میں داخل نہ ہونے دیا۔ 24 گھنٹے میری بچی ایڈمٹ رہی۔ اس دوران کئی بار آکسیجن بند ہوئی  کبھی پون گھنٹہ، کبھی دو گھنٹے۔ آخرکار 19 جون کی دوپہر 12 بج کر 37 منٹ پر میری بچی نے دم توڑ دیا۔ میں دہائی دیتا رہا، رویا، احتجاج کیا  لیکن کچھ نہ بدلا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں نرسوں اور عملے کا رویہ فرعونیت سے کم نہ تھا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں بچے کی پیدائش پر مٹھائی لے کر آتے ہیں، مگر کفن خرید کر واپس جاتے ہیں۔ میری اپیل ہے کہ اس نظام کو بدلا جائے۔ ہم عام لوگ ہیں، دوائیں باہر سے خریدی، پیسے بھی خرچ کیے مگر ہماری بیٹی کو ایک سانس تک نہ مل سکی۔

انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور دیگر اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا  ہے کہ یہ صرف میری بچی کا مسئلہ نہیں یہاں 20 سے زائد بچوں کی جانیں گئیں، یہ بچوں کا قتل ہے۔ اس کا نوٹس لیا جائے، ذمہ داروں کا تعین ہو، انصاف دیا جائے اور ہسپتال کا نظام درست کیا جائے۔

Details
ایم ایس سے ملنے کی کوشش کی مگر سکیورٹی نے کمرے میں داخل نہ ہونے دیا۔ (فوٹو: پاکستان میٹرز)

واقعے کے بعد اسپتال انتظامیہ کی جانب سے 21 جون کو ایک تین رکنی داخلی انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی، جس میں دو ڈاکٹرز اور ایک ہیڈ نرس شامل تھیں۔ اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں آکسیجن کی کمی یا عملے کی غفلت کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ تمام بچے پہلے ہی تشویشناک حالت میں اسپتال لائے گئے تھے۔

رپورٹ میں صرف اس امر پر سوال اٹھایا گیا کہ اموات کا باقاعدہ ریکارڈ موجود نہیں تھا اور عملے کے لیے ریفریشر کورسز کی تجویز پیش کی گئی۔ تاہم ورثا نے اس رپورٹ کو مسترد کر دیا اور ایک غیرجانبدار، بیرونی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ کئی والدین نے میڈیا کے سامنے اسپتال میں سہولیات کی کمی، ناتجربہ کار عملے اور مبینہ بدانتظامی کے خلاف کھل کر بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وقت پر آکسیجن دی جاتی تو شاید ان کے بچے آج زندہ ہوتے۔

اسپتال میں رات کے وقت آکسیجن سلنڈر کی تبدیلی کی ذمہ داری صرف ایک شخص پر تھی اور ایمرجنسی کی صورت میں اسے ڈھونڈنا پڑتا تھا۔ اگر وہ شخص موقع پر دستیاب نہ ہوتا تو مریض صرف سانس کے لیے تڑپتا رہتا۔ رپورٹ کے مطابق یہ انتظام انتہائی غیرمحفوظ اور ناقابل قبول تھا  خاص طور پر ایسے اسپتال کے لیے جہاں روزانہ کئی نومولود بچے داخل کیے جاتے ہیں۔

اسپتال کے اندر بھی حالات کشیدہ ہو چکے ہیں۔ طبی عملہ انتظامیہ پر الزام تراشی کر رہا ہے، جب کہ ایم ایس اور انتظامی افسران ڈاکٹروں کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ اسی کشمکش کے دوران پنجاب کی سیکرٹری ہیلتھ ڈاکٹر نادیہ ثاقب نے اسپتال کا دورہ کیا اور صورتحال کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے فوری کارروائی کی ہدایت دی۔

“یہ پاکستان ہے، یہاں ہماری جانیں محفوظ نہیں!”یہ جملہ پاکپتن سانحے پر ردعمل دیتے ہوئے سینئر صحافی ضیاء الرحمٰن نے کہا۔   ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلا واقعہ نہیں   ماضی میں ساہیوال، سوات اور دیگر شہروں میں بچوں کی اموات کے کئی سانحات پیش آ چکے ہیں، لیکن ان کے ذمہ داروں کا تعین کبھی نہ ہو سکا۔

ضیاء الرحمٰن کے مطابق اداروں میں موجود مافیاز اس قدر بااثر ہو چکے ہیں کہ اگر کبھی کوئی کارروائی ہو بھی جائے تو صرف چھوٹے سرکاری ملازمین کو عارضی معطلی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعدازاں وہی افراد مزید طاقت ور عہدوں پر واپس آ جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر یہی سانحہ لاہور کے کسی بڑے اسپتال میں پیش آتا تو میڈیا، پولیس اور محکمہ صحت کے اعلیٰ حکام فوراً حرکت میں آ جاتے۔ لیکن چونکہ یہ واقعہ دور دراز ضلع میں پیش آیا، اس لیے نہ میڈیا کی بھرپور کوریج ہوئی، نہ اعلیٰ حکومتی نمائندوں کی جانب سے کوئی فوری ردعمل سامنے آیا۔

ضیاء الرحمٰن نے مزید کہا کہ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن جیسی تنظیمیں اکثر احتجاج، دباؤ اور ہڑتال کے ذریعے خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے لگتی ہیں اور اسپتالوں میں بدانتظامی یا غفلت کے باوجود ان کے خلاف کوئی سنجیدہ کارروائی عمل میں نہیں آتی۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب تک نظام میں بیٹھے کرپٹ عناصر  خواہ وہ تعلیم میں ہوں، صحت میں یا پانی جیسے بنیادی وسائل میں ان کے خلاف کھلی، حتمی اور قانونی کارروائی نہیں کی جائے گی، ایسے سانحات ہوتے رہیں گے۔

یہ معاملہ محض غفلت کا نہیں بلکہ بدعنوانی اور بدنظمی کا گہرا جال بھی سامنے لاتا ہے۔ 11 اپریل 2025 کو ڈی ایچ کیو اسپتال پاکپتن میں آکسیجن کی مبینہ قلت اور مالی بے ضابطگیوں کے حوالے سے ایک داخلی انکوائری رپورٹ سامنے آئی، جس نے صورتِ حال کی سنگینی کو آشکار کیا۔ پانچ رکنی کمیٹی، جس میں محکمہ صحت، اکاؤنٹس اور ایڈمن کے نمائندے شامل تھے، نے اپنی ابتدائی تفتیش میں سنگین بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی۔

Pakpattan
ایک نئی کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے اور رپورٹ کی ڈیڈ لائن بھی مقرر ہے۔ (فوٹو: فیسبک)

رپورٹ کے مطابق جولائی 2023 سے جنوری 2024 کے دوران آکسیجن سلنڈرز کی خریداری میں شدید بے ترتیبی پائی گئی۔ آکسیجن کنسنٹریٹرز کی دستیابی کے باوجود سلنڈرز کے استعمال میں غیرمعمولی اضافہ ہوا اور اسپتال کے رجسٹرز میں روزانہ کا ریکارڈ یا تو غیرمکمل تھا یا بالکل غائب۔ کئی مریضوں کو آکسیجن فراہم کی گئی، مگر علاج کے ثبوت جیسے ڈاکٹر کی ایمرجنسی سلپس یا نسخے  کہیں دستیاب نہیں تھے۔

مزید یہ کہ مرکزی آکسیجن لائن کا نہ کوئی فٹنس سرٹیفکیٹ تھا، نہ تھرڈ پارٹی ویری فکیشن۔ کمیٹی نے یہ بھی انکشاف کیا کہ بعض اسٹاف ممبران نے آکسیجن کی جعلی خریداری اور فرضی مریضوں کے ذریعے مبینہ طور پر 2 کروڑ 24 لاکھ روپے سے زائد کی رقم کا غبن کیا ۔ اسپتال انتظامیہ نے اس کے بعد فنانس، پروکیورمنٹ، ہیومن ریسورس، آڈٹ اور لاجسٹک افسران کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا۔

 اس فیصلے پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ اگر داخلی انکوائری رپورٹ میں کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا تو صرف انتظامی افسران کو کیوں ہٹایا گیا؟ کیا یہ اقدامات اصل اصلاحات کی طرف قدم ہیں یا محض عوامی دباؤ کو کم کرنے کی کوشش؟ اس کا جواب تاحال واضح نہیں۔

 سب سے چونکا دینے والا پہلو یہ تھا کہ جعلی اندراجات پر مشتمل بلز کی ادائیگی میں اکاؤنٹس آفیسرز نے دانستہ آنکھیں بند رکھیں  جو ملی بھگت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

یہ رپورٹ اُس وقت سامنے آئی جب بچوں کی اموات کے حوالے سے عوامی تشویش عروج پر تھی۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر 11 اپریل کو یہ سنگین بے ضابطگیاں سامنے آ چکی تھیں، تو پھر جون میں بچوں کی اموات تک کوئی فیصلہ کن اقدام کیوں نہ لیا گیا؟ کیا ماضی کی طرح اس بار بھی کاغذی کارروائی، اصل مسئلے سے آنکھیں چرانے کا ذریعہ بنے گی؟

اب تک وزیرِ صحت پنجاب خواجہ عمران نذیر اس معاملے پر عوامی طور پر کوئی واضح مؤقف اختیار نہیں کر سکے۔ ان سے رابطے پر ان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اب تک کی تحقیقات میں آکسیجن کی کمی یا پیرامیڈیکل اسٹاف کی جانب سے کسی قسم کی غفلت سامنے نہیں تاہم  کمشنر ساہیوال ڈویژن کی ہدایت پر بچوں کی ہلاکتوں کے واقعے کی مکمل اور غیر جانبدار تحقیقات کے لیے ایک باقاعدہ انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کمیٹی کا باضابطہ نوٹیفکیشن 26 جون 2025 کو ساہیوال میڈیکل کالج کی جانب سے جاری کیا گیا، جس کے مطابق تین رکنی پینل آئندہ پانچ دنوں میں اپنی جامع رپورٹ مرتب کرے گا اور ممکنہ ذمہ داران کا تعین کرے گا۔ کمیٹی کی صدارت ڈاکٹر مزمل عرفان حیات کریں گے، جو ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال میں ایڈمنسٹریٹو میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کے ہمراہ ڈاکٹر جویریہ سعید، جو پیڈیاٹرک میڈیسن کی سینیئر رجسٹرار ہیں، اور انجینئر احمر بلال، جو بائیو میڈیکل انجینئر ہیں، بطور اراکین شامل کیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تین مختلف پس منظر رکھنے والے ماہرین پر مشتمل یہ پینل آکسیجن سپلائی کی ممکنہ ناکامی، اموات سے اس کا تعلق اور اسپتال کے ایمرجنسی ریسپانس کی موثریت جیسے نکات پر تحقیقات کرے گا۔

پاکپتن کے ایک سینئر مقامی صحافی احمد وٹو  نے اس سانحے پر پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ سلسلہ محض چند دنوں یا بچوں تک محدود نہیں رہا   بلکہ یہ ایک مسلسل اور خوفناک لاپرواہی کا نمونہ بن چکا ہے۔

ان کے مطابق  16 جون کو جب ابتدائی اموات ہوئیں تو شہریوں نے فوری طور پر اسپتال انتظامیہ کو تحریری طور پر آگاہ کر دیا کہ بچوں کی اموات آکسیجن نہ ملنے اور عملے کی غفلت کی وجہ سے ہو رہی ہیں، مگر نہ ایم ایس نے کوئی توجہ دی، نہ ضلعی انتظامیہ نے کوئی سنجیدہ ایکشن لیا۔

صحافی نے بتایا ہےکہ یہ ان کا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ایک ماں چائلڈ وارڈ میں نرس سے اپنے بچے کی حالت دیکھنے کی درخواست کر رہی تھی،   بچہ سانس نہیں لے رہا تھا    مگر نرس نے لاپروائی سے جواب دیا کہ آپ کو جلدی ہے تو پرائیویٹ اسپتال لے جائیں۔

مقامی سطح پر یہ تاثر زور پکڑ چکا ہے کہ ڈی ایچ کیو اسپتال کے ڈاکٹر حضرات کی تنخواہ کا محور صرف ایک جملہ ہےکہ اس مریض کو لاہور لے جائیں یا ساہیوال لے جائیں۔ چاہے بچہ ہو یا بزرگ، ہر مریض کو یہی مشورہ دیا جاتا ہے   علاج کم، حوالہ زیادہ۔

 ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ اموات صرف بچوں تک محدود نہیں  حالیہ دنوں میں تین خواتین بھی مبینہ طور پر ناقص یا غیر معیاری انجیکشن لگنے کے باعث جاں بحق ہو چکی ہیں، متاثرہ خاندانوں نے الزام عائد کیا ہے کہ جب انجیکشن لگایا گیا تو فوری بعد ان خواتین کی حالت بگڑ گئی اور وہ جانبر نہ ہو سکیں۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ اسپتال عملہ کیا وضاحت دیتا ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ  ڈاکٹر حضرات کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی رضا تھی، طبعی موت ہے، ہم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی   لیکن سوال یہ ہے کہ جب وارڈ کے اندر موجود عملہ خود کہہ رہا تھا کہ سلنڈر موجود نہیں تو کیا یہ قدرتی موت کہلائی جا سکتی ہے؟

ان کے بقول اب جب تحقیقات شروع ہو چکی ہیں، تب بھی مقامی سطح پر یہی شکایتیں موجود ہیں کہ انکوائری کو بھی محض ایک رسمی کارروائی کے طور پر لیا جا رہا ہے۔

یہ پہلا موقع ہے جب اس سانحے کی تفتیش کسی بیرونی کمیٹی کے سپرد کی گئی ہے، جو نہ صرف تکنیکی پہلوؤں کا جائزہ لے گی بلکہ اس بات کی تہہ تک جانے کی کوشش کرے گی کہ بچوں کی جان بچائی جا سکتی تھی یا نہیں کمیٹی کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ پانچ دن کے اندر، یعنی 2 جولائی 2025 تک اپنی تحقیقاتی رپورٹ مکمل کرے اور اسے متعلقہ حکام کے سامنے پیش کرے۔

واضح رہے کہ تحقیقات کا آغاز ہو چکا ہے۔ ایک نئی کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے اور رپورٹ کی ڈیڈ لائن بھی مقرر ہے۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ رپورٹ ماضی کی درجنوں رپورٹوں سے مختلف ہوگی؟ کیا اس بار کوئی ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا؟ کیا نتائج صرف کاغذوں تک محدود رہیں گے یا واقعی اصلاحات کی بنیاد بنیں گے؟

یہ بھی دیکھنا باقی ہے کہ کیا یہ تحقیقات صرف آکسیجن کی فراہمی یا تکنیکی معاملات تک محدود رہیں گی یا نظامی ناکامی، بدانتظامی اور ممکنہ مالی بے ضابطگیوں تک بھی رسائی حاصل کریں گی؟ اور سب سے اہم سوال کہ کیا ان بیس بچوں کی ہلاکت کا انجام محض ایک عدد بن کر رہ جائے گا یا یہ سانحہ صحت کے نظام کے لیے ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہو سکے گا؟

عاصم ارشاد

عاصم ارشاد

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس