اسرائیل–متحدہ عرب امارات کے امن معاہدے یا ابراہیم ایکارڈ، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان 15 اگست 2020ء کو کیا گیا۔ اگر اس معاہدے پر دستخط ہوجاتے ہیں تو متحدہ عرب امارات، مصر اور اردن کے بعد تیسرا عرب ملک ہوگا، جو اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو باضابطہ طور پر معمول بنائے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اگست 2020 میں ابراہیم ایکارڈز کا اعلان کیا، جس کے تحت 15 ستمبر 2020ء کو اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے وائٹ ہاوس میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران سفارتی تعلقات کے معاہدے پردستخط کیے۔
معاہدوں کے اس سلسلے کے تحت مراکش اور سوڈان بھی اسرائیل سے تعلقات قائم کرچکے ہیں۔ اس معاہدے کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام سے منسوب کیا گیا ہے تاکہ اسلام، مسیحیت اور یہودی مذہب سے وابستہ افراد کو قریب لایا جاسکے۔ اس کے تحت فریقین اسرائیل فلسطین کشیدگی سے ہٹ کر معاشی مواقع میں اضافے اور سلامتی کے حوالے سے تعاون کرنے کے پابند ہوں گے۔
افغانی خبررساں ادارے الامارہ اردو کے مطابق ابراہیم ایکارڈ“ اسرائیل اور کئی عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے طے پانے والا معاہدہ ہے، جوکہ امریکا کی ثالثی میں عرب ممالک کے درمیان طے پایا تھا، جس کا مقصد مشرقِ وسطیٰ میں امن اور تعاون کو فروغ دینا تھا۔ اس معاہدے کا نام بائبل کے پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام پر رکھا گیا تھا، جو یہود، مسیحی اور مسلمانوں کے لیے مشترکہ پیغمبر ہیں۔

اس معاہدے میں مرکزی فریق اسرائیل تھا کیونکہ اس کی ضرورت تھی کہ وہ عرب ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرے۔
یہ معاہدہ کب ہوا؟
ابراہیم ایکارڈز پر باضابطہ دستخط 15 ستمبر 2020ء کو وائٹ ہاؤس، واشنگٹن ڈی سی میں ہوئے۔ تقریب کی صدارت اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کی، جنہوں نے خود کو اس عمل کا امن کا معمار قرار دیا۔ یہ معاہدہ اس وقت کا ایک بڑا جغرافیائی سیاسی واقعہ تھا، جو کئی دہائیوں پر محیط عرب-اسرائیل کشیدگی کے برعکس ایک نیا راستہ متعین کر رہا تھا۔
ابراہیم ایکارڈ کامحرک کون تھا؟
ابراہیم معاہدوں کا محرک دراصل امریکا تھا، ٹرمپ انتظامیہ نے نہ صرف مذاکرات کی میزبانی کی بلکہ دباؤ اور ترغیب دونوں کا استعمال کیا تاکہ عرب ریاستیں اسرائیل کو تسلیم کریں۔
اس امریکی اقدام کے پیچھے کئی محرکات تھے، جن میں مشرقِ وسطیٰ میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا، امریکا کے اتحادی عرب ممالک کو اسٹریٹیجک فائدے کی یقین دہانی کروانا اور امریکی صدارتی انتخابات سے قبل ایک خارجہ پالیسی کامیابی دکھاناہے۔
اگر معاہدے کے چیدہ چیدہ نکات کی بات کی جائے تو اس میں سب سے پہلے سفارتی تعلقات کا قیام ہے، پھر متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش جیسے ممالک کی جانب سے اسرائیل کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرکے سفارتخانے کھولنے پر آمادگی ظاہر کرنا ہے۔

اس کے بعد سیاسی و اقتصادی تعاون ہے، یعنی کہ معاہدے کے بعد کئی اہم اسرائیلی ٹیکنالوجی اور عرب سرمایہ کاری جیسے اقتصادی اور تکنیکی معاہدے طے پائے۔
اس کے علاوہ فلسطین کے مسئلے کو نظر انداز کرنا بھی شامل ہے، اگرچہ رسمی طور پر معاہدہ فلسطینی حقوق کو تسلیم کرتا ہے، مگر عملی طور پر اسرائیل اور عرب ریاستوں نے فلسطین کے سوال کو مؤخر کر کے دو طرفہ مفادات کو ترجیح دی۔
یہ معاہدہ ایران کو ایک مشترکہ خطرہ کے طور پر پیش کرتا ہے اور اسرائیل و عرب ممالک کے درمیان خفیہ دفاعی تعاون کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اسرائیلی اور عرب شہریوں کے درمیان براہِ راست پروازیں، ویزہ پالیسی میں نرمی اور ثقافتی تبادلوں کی شروعات کی گئیں۔
فلسطینی قیادت نے اس معاہدے کو پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا۔ ان کے مطابق عرب ممالک نے decades-long عرب اتحاد کی خلاف ورزی کی، جو کہ اسرائیل کو اس وقت تک تسلیم نہ کرنے پر قائم تھا جب تک فلسطینی ریاست قائم نہ ہو۔
عالمی سطح پر ابراہیم ایکارڈز پر بڑا ردِعمل دیکھنے کو ملا، ایران اور ترکی نے اس معاہدے کی شدید مذمت کی۔ امریکا اور یورپی ممالک نے اسے امن کی طرف ایک بڑا قدم قرار دیا، جب کہ اسرائیل میں اس معاہدے کو تاریخی کامیابی کے طور پر سراہا گیا۔
ابراہیم ایکارڈز نے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کا منظرنامہ بدل کر رکھ دیا، جہاں پہلے اسرائیل کو عرب دنیا میں ایک اجنبی اور غاصب ریاس” سمجھا جاتا تھا، وہیں اب وہ بعض عرب ممالک کا دفاعی، تجارتی اور تکنیکی شراکت دار بن چکا ہے۔ اگرچہ اس معاہدے نے بظاہر خطے میں امن اور ترقی کی نئی راہیں کھولی ہیں، مگر اس نے فلسطینی عوام کے دیرینہ مطالبات کو پسِ پشت ڈال کر ایک نئے قسم کا عدم توازن بھی جنم دیا ہے۔

عوامی حلقوں میں اس معاہدے نے ایک بار پھر نئی بحث چھیڑی ہے اور کئی سوالات کو جنم دیا ہے جیساکہ کیا یہ دیرپا امن کی طرف قدم ہے یا صرف ایک عارضی جیوپولیٹیکل اتحاد؟ اور کیا اس معاہدے سے اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں اپنی طاقت مضبوط کرلے گا اور پاکستان اس میں کیسے کردار ادا کرسکتا ہے؟
ان سوالات کے جوابات تو اب وقت ہی بتائے گا، مگر ایک بات تو واضح ہے کہ اسرائیل نے اس معاہدے کے ذریعے امریکا کی ثالثی میں ایک ایسی چال چلی ہے، جو کہ مسلمانوں کے تشویشناک ہے۔