Follw Us on:

خلیجی دباؤ اور عالمی صف بندیاں: اگر ایران، اسرائیل جنگ دوبارہ چھڑتی ہے تو پاکستان پر کیا اثرات ہوں گے؟

احسان خان
احسان خان
Whatsapp image 2025 07 04 at 17.28.16
خلیجی دباؤ اور عالمی صف بندیاں: اگر ایران، اسرائیل جنگ دوبارہ چھڑتی ہے تو پاکستان پر کیا اثرات ہوں گے؟(فائل فوٹو)

مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی نے ایک بار پھر عالمی سطح پر نئی سفارتی اور معاشی صف بندیاں پیدا کر دی ہیں۔ ایسے میں ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کھلی جنگ میں تبدیل ہوئی، تو اس کے اثرات براہ راست جنوبی ایشیائی ممالک خصوصا پاکستان پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔

تازہ ترین پیش رفت میں امریکا نے ایران کی پیٹرولیم اور پیٹروکیمیکل مصنوعات کی ترسیل میں معاونت کرنے کے الزام میں چھ عالمی کمپنیوں اور متعدد بحری جہازوں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ اور محکمہ خزانہ کے تحت کام کرنے والے ادارے آفس آف فارن ایسٹس کنٹرول (او ایف اے سی) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کمپنیوں کا تعلق انڈیا، پاکستان، متحدہ عرب امارات، پاناما اور ایران سے ہےاور یہ ایران کو عالمی پابندیوں سے بچا کر غیر رسمی مالی مدد فراہم کر رہی تھیں۔

پابندیوں کی زد میں آنے والی پاکستانی کمپنی ’الائنس انرجی پرائیویٹ لمیٹڈ‘ کا دفتر لاہور میں رجسٹرڈ ہے جس پر ماضی میں بھی ایران کے ساتھ تیل کی تجارت کے الزامات کے تحت امریکی پابندیاں لگ چکی ہیں۔

یہ اقدامات ایک ایسے وقت میں کیے گئے ہیں جب ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکا اور اسرائیل کے حالیہ حملوں کے بعد خطے میں پہلے ہی شدید تناؤ پایا جاتا ہے۔ پابندیوں کا مقصد ایران کی مالی صلاحیت کو محدود کرنا ہے تاکہ وہ اپنے علاقائی اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوششوں سے باز رہے۔

Iran atomic power
ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکا اور اسرائیل کے حالیہ حملوں کے بعد خطے میں پہلے ہی شدید تناؤ پیدا ہوا ( فائل فوٹ)

پاکستان میں دفاعی اور عالمی امور کے ماہرین اس صورتحال کو گہری نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر ظہر عباس نے کہا کہ اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان براہِ راست فوجی تصادم ہوتا ہے تو اس کے سیاسی، معاشی اور سٹریٹجک اثرات پاکستان تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ہر قسم کی کشیدگی پاکستان کے لیے دوہری چیلنج بن جاتی ہے۔ ایک طرف تیل کی عالمی قیمتوں میں ممکنہ اضافہ ملکی درآمدی بل کو متاثر کرے گا تو دوسری طرف خلیجی ممالک میں کام کرنے والے لاکھوں پاکستانیوں کا روزگار بھی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہو سکتا ہے۔

پروفیسر ظہر عباس کے مطابق ایسے کسی بھی بحران میں پاکستان کو فوری طور پر خارجہ پالیسی مالیاتی نظام اور توانائی کی حکمت عملی پر ازسرنو غور کرنا پڑے گا۔ انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کو سفارتی سطح پر متحرک رہنا ہوگا تاکہ خلیج میں ممکنہ تصادم کے منفی اثرات کو کم سے کم کیا جا سکے۔

ادھر امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے پابندیوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم ایران کی غیر مستحکم سرگرمیوں کو ایندھن فراہم کرنے والے مالی ذرائع کو ختم کرنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے اور ایسے تمام نیٹ ورکس کو بے نقاب کریں گے جو ایران کو پابندیوں سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

American finance minister
امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے پابندیوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم ایران کی غیر مستحکم سرگرمیوں کو ایندھن فراہم کرنے والے مالی ذرائع کو ختم کرنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے( فائل فوٹو)

عالمی تجزیہ کاروں کے مطابق ایران پر تازہ امریکی پابندیاں صرف ایک ملک تک محدود نہیں رہیں گی۔ خلیجی اور ایشیائی تجارتی نیٹ ورکس بھی اس کی لپیٹ میں آئیں گے جس کا اثر عالمی شپنگ، انشورنس، اور توانائی کی ترسیل کے نظام پر پڑ سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاہدہ ’ابراہیم اکارڈ‘ کیا ہے؟

پاکستانی کاروباری حلقوں میں بھی اس صورت حال پر تشویش پائی جا رہی ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تیل مصنوعات کے درآمد کنندہ عثمان اسلم نے پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم پہلے ہی عالمی منڈی میں عدم استحکام کا سامنا کر رہے ہیں۔ اگر خطے میں کوئی نیا بحران پیدا ہوتا ہے، تو اس سے شپنگ لاگت اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا جس کا بوجھ آخرکار صارفین کو اٹھانا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پہلے ہی مہنگائی کا دباؤ بڑھا ہوا ہے ایسے میں عالمی سطح پر توانائی کی قیمتوں میں اضافہ روزمرہ زندگی کو مزید مشکل بنا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:’پانچ ممالک میں جنگیں رکوائیں‘, ڈونلڈ ٹرمپ نے خود کو نوبیل امن انعام کا بہترین امیدوار قرار دے دیا

ماہرین کے مطابق ایران اور اسرائیل کے درمیان کسی ممکنہ جنگ کی صورت میں پاکستان کو فوری معاشی اور سفارتی چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے۔ نہ صرف درآمدی لاگت میں اضافہ بلکہ خلیجی ممالک میں مقیم پاکستانی محنت کشوں کی ترسیلات زر بھی خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ ان حالات میں فیصلہ کن سفارتی حکمت عملی اور داخلی معاشی استحکام پاکستان کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے

Author

احسان خان

احسان خان

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس