نوجوان نسل کسی بھی ملک کا سب سے قیمتی سرمایہ سمجھی جاتی ہے اور ملکی ترقی کا دارومدار نوجوانوں کے کردار پر ہوتا ہے۔ پاکستان کی نوجوان نسل آج ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ تعلیم یافتہ، باصلاحیت اور باہمت نوجوان بڑی تعداد میں ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ بیرون ملک بہتر مواقع کی تلاش میں ہیں یا انہیں اپنے ہی وطن کے نظام پر اعتماد نہیں رہا؟
وفاقی وزارت داخلہ اور بیورو آف امیگریشن کے مطابق 2024 میں نو لاکھ سے زائد پاکستانی نوجوانوں نے مختلف ممالک میں ملازمت، تعلیم یا مستقل رہائش کے لیے ملک چھوڑا۔ 2025 کے پہلے چھ مہینوں میں یہ تعداد 5 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔
زیادہ تر نوجوان مڈل ایسٹ، یورپ، کینیڈا، امریکا، آسٹریلیا اور ملائیشیا کا رخ کر رہے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد ان نوجوانوں کی ہے، جو اعلیٰ تعلیم یافتہ، فنی مہارت رکھنے والے یا کاروباری ذہن رکھتے ہیں۔ یہ نوجوان کسی بھی قیمت پر ملک چھوڑنا چاہتے ہیں، خواہ انہیں ڈنکی بھی لگانی پڑے جوکہ ان کی موت کا مؤجب بنے۔
نوجوان نسل باہر جانے کے لیے اتنی بےتاب کیوں ہے؟ حکومت نوجوانوں میں اپنا اعتماد بحال کرنے میں کیوں ناکام نظر آتی ہے؟ اور ملک چھوڑنے کی خواہش میں جان تک کا نذرانہ پیش کرنے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟ ان تمام سوالات کے جوابات جاننے کے لیے ’پاکستان میٹرز‘ نے مختلف شہروں کے نوجوانوں، ماہرین تعلیم، سماجی کارکنوں اور معاشی ماہرین سے خصوصی گفتگو کی تاکہ اس رجحان کی وجوہات کو سمجھا جا سکے۔

مظفرگڑھ سے تعلق رکھنے والے بزنس ایڈمنیسٹریشن کے گریجویٹ ملک وسیم کہتے ہیں کہ میں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، فری لانسنگ اور انٹرنشپس بھی کیں، مگر ملک میں ملازمت کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں، ہر جگہ سفارش اور تجربے کا تقاضا ہوتا ہے۔ کہیں اگر پرائیویٹ ملازمت ملتی ہے تو تنخواہ اتنی کم ہوتی ہے کہ اخراجات تک کے لیے ناکافی ثابت ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 2024 میں 8 فیصد رہی، مگر نوجوانوں کے درمیان یہ شرح 15 فیصد سے بھی زائد بتائی جاتی ہے۔
ملتان کے اکاؤنٹس گریجویٹ محمد رضوان حمید کہتے ہیں کہ مہنگائی، کرنسی کی گراوٹ اور بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی نے زندگی کو مشکل بنا دیا ہے۔ ایک اچھی زندگی کی خواہش میں ہم جیسے لوگ باہر جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق 2023 سے 2025 کے دوران پاکستان کو معاشی بحران، آئی ایم ایف معاہدوں اور ڈالر کی بلند ترین سطح کا سامنا رہا، جس کے باعث خاندان کے اخراجات اٹھانا ایک چیلنج بن چکا ہے۔
فیصل آباد سے قانون کے طالبعلم محمد وہاج کہتے ہیں کہ اس فیلڈ میں ہونے کی وجہ سے میں یہ سمجھ چکس ہوں کہ یہاں اگر آپ کا کوئی تعلق نہیں تو آپ کے حق کے لیے آواز بلند کرنا بے معنی ہے۔ انصاف میں تاخیر، کرپشن اور سسٹم کی ناکامی نے نوجوانوں کو مایوس کر دیا ہے۔

نوجوان نسل کے ملک چھوڑنے کی ایک اہم وجہ شفافیت اور انصاف کی فراہمی کا فقدان ہے، جس نے نوجوانوں کے دلوں میں ریاستی اداروں سے دوری پیدا کر دی ہے۔
پاکستان کے بہت سے تعلیمی ادارے عالمی معیار کے مطابق تعلیم فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق مہارتیں نہیں رکھتے، جس کے باعث وہ اوور ایجوکیٹڈ مگر انڈر ایمپلائیڈ ہو جاتے ہیں۔ 2025 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کوئی بھی جامعہ دنیا کی پہلی 350 جامعات میں اپنی جگہ بنانے میں ناکام رہی ہے۔
بیرون ملک تعلیم و روزگار کے مواقع کے ساتھ ساتھ صحت، ٹیکنالوجی، سماجی فلاح اور انفرادی آزادی جیسے عوامل نوجوانوں کو کشش دیتے ہیں۔ کینیڈا، آسٹریلیا اور یورپی ممالک میں امیگریشن پالیسیوں میں نرمی اور ہنر مند افراد کو ترجیح نے بھی اس رجحان کو فروغ دیا ہے۔
لاہور نواز شریف میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کے طالب علم یاسر عرفاان نے کہا ہے کہ میں جرمنی جانا چاہتا ہوں کیونکہ وہاں مجھے ہاؤس جاب کے ساتھ ساتھ اسٹڈی ویزا پر مالی سپورٹ بھی ملے گی، جو پاکستان میں ممکن نہیں۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ رجحان ’برین ڈرین‘ کی خطرناک شکل اختیار کر رہا ہے۔ ہنر مند، تعلیم یافتہ اور باصلاحیت نوجوانوں کا ملک سے چلے جانا پاکستان کی معیشت، سائنسی ترقی اور سماجی ترقی کے لیے شدید دھچکا ہے۔
معروف معاشی ماہر ڈاکٹر زبیر احمد کے مطابق پاکستان ہر سال کروڑوں روپے ان نوجوانوں کی تعلیم پر خرچ کرتا ہے، مگر جب وہ ملک چھوڑ دیتے ہیں تو یہ سرمایہ کاری ضائع ہو جاتی ہے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے مختلف اسکالرشپ پروگرامز، یوتھ انٹرن شپ اسکیمز اور ٹیکنالوجی زونز قائم کرنے کے اعلانات کیے گئے، مگر نوجوانوں کا ماننا ہے کہ یہ اقدامات زمینی حقائق کے مطابق نہیں۔
وزارت تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کے لیے ‘کامیاب جوان پروگرام’، ‘ای وی ایس پروگرام’ اور مختلف ووکیشنل ٹریننگ اسکیمز پر کام کر رہے ہیں، مگر اس میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کو ملک میں روکنے کے لیے درج ذیل اقدامات کی فوری ضرورت ہے کہ روزگار کے مواقع میں اضافہ، اعلیٰ معیار کی تعلیم اور ہنر کی فراہمی، انصاف کی فوری فراہمی اور شفافیت، اسٹارٹ اپ کلچر اور انٹرپرینیورشپ کی حوصلہ افزائی، نوجوانوں کو فیصلہ سازی میں شامل کرنا اہم ہے۔
پاکستان کے نوجوان ملک چھوڑنے کا فیصلہ صرف معاشی بہتری کے لیے نہیں کر رہے بلکہ وہ اپنے مستقبل کے تحفظ، وقار اور صلاحیتوں کی قدردانی کی تلاش میں ہیں۔ اگر ریاست فوری طور پر اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ نہ دے، تو پاکستان اپنی سب سے قیمتی دولت یعنی نوجوان نسل سے ہاتھ دھو سکتا ہے۔
یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ نوجوان نسل کسی بھی قیمت پر ملک چھوڑنا چاہتی ہے خواہ پھر ڈنکی ہی کیوں نہ لگانی پڑے اور اس عمل میں بہت سے نوجوان اپنی زندگیاں ہار جاتے ہیں۔ اسی طرح بعض اوقات وہ ایجنٹوں کا شکار ہوتے ہیں اور وہ انہیں گلف ممالک میں بیچ دیتے ہیں۔
خیال رہے کہ اگر حکومت نے اس بڑھتے ہوئے مسئلے کو سنجیدہ نہ لیا تو ممکن ہے کہ ایک دن ساری نوجوان نسل ہی ملک سے باہر جانا چاہے یا چلی جائے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ایک نہایت ہی خطرناک صورتِ حال ہوگی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت نوجوانوں کے لیے کونسے اقدامات اٹھاتی ہے؟ اور ان کے نتائج کیا ہوں گے؟
ویسے تو ان تمام سوالات کے جوابات وقت ہی بتائے گا کہ کیا ہوں گے مگر ایک بات تو طے ہے کہ اس صورتحال کو حکومت کو سنجیدہ لینا ہوگا اور تعلیم سے سیاست تک جہاں بھی مسائل ہیں جوکہ نوجوانوں میں مایوسی کی وجہ بنتے جارہے ہیں، ان کو حل کرنا پڑے گا۔