Follw Us on:

جناح انٹارکٹک اسٹیشن: مفادات کے تحفظ کا انوکھا پلیٹ فارم، کیا پاکستان اسے دوبارہ فعال کر پائے گا؟

زین اختر
زین اختر

روزِ اؤل سے انسان قدرت کے کرشموں کو اپنی عقل سے کھوجتا آیا ہے۔ انسان کی سوچنے اور نئے طریقے دریافت کرنے کی صلاحیت اسے اس قابل بناتی ہے کہ وہ زمین و آسمان کی تہوں میں چھپے قدرت کے رازوں کو دریافت کر سکے۔ کائنات کے پوشیدہ پہلوؤں سے روشنائی کا سفر آج بھی جاری ہے جس کی ایک مثال پاکستان کا جناح انٹارکٹک اسٹیشن ہے۔
جناع انٹارکٹک اسٹیشن براعظم انٹارکٹیکا پہ واقع ایک تحقیقی سٹیشن ہے۔ یہ سٹیشن پاکستان کے انٹارکٹیکا پروگرام کے تحت کام کرتا ہے۔ جس کے تحت پاکستان باقی ممالک کی شراکت داری کے ساتھ اس علاقے میں تحقیق کرتا ہے کہ اس علاقے کو ترقی کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ یہ اسٹیشن مشرقی انٹارکٹیکا کے علاقے جنوبی رونڈین کے پہاڑوں کی ملکہ مود لینڈ میں واقع ہے۔
دوسری جنگ عظیم کےبعد براعظم انٹارکٹکا پہ مختلف ممالک نے اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کی۔ جس کے نتیجے میں عالمی اداروں کی مدد سے 1958 میں سائنسی کمیٹی برائے انٹارکٹیکا تحقیق قائم کیا گیا۔ یہ اس براعظم میں سائنسی تحقیق سرانجام دے رہا ہے۔ 1959 میں واشنگٹن میں “انٹارکٹک معاہدہ” ہوا جس میں 12 ممالک کےدستخط ہوئے۔ اب تک کُل ممالک کی تعداد 58 ہو چکی ہے۔ سائنسی کمیٹی برائے انٹارکٹیکا تحقیق کے قائم ہونے کے بعد وہاں مختلف ممالک نے اپنے اپنے سائنسی سٹیشنز قائم کیے۔ مزید براں کمیٹی وہاں موجود باقی ممالک کے سائنسی پروگرامز کے ساتھ شراکت داری بھی کرتی ہے۔
پاکستان نے ‘سائنسی کمیٹی برائے انٹارکٹیکا تحقیق’ کے ساتھ انٹارکٹیکا میں تحقیق کے لیے 1991 میں ایک معاہدہ کیا جسے پاکستان آرکیٹک پروگرام کہا جاتا ہے۔ یہ پروگرام پاکستان کی وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی کے تعاون سے ‘نیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے محیطیات’ نے پاک بحریہ کے زیر انتظام شروع کیا۔
پاکستان نے اس پروگرام کے تحت وہاں جناح انٹارکٹک اسٹیشن قائم کیا۔ 2001 میں اسٹیشن کے ڈیٹا آپریشنل سسٹم کو ‘بدر بی’ سیٹلائٹ کے ساتھ منسلک کیا گیا جس سے کراچی میں واقع این آئی او کے ہیڈکوارٹرز میں اس علاقے کے ڈیجیٹل مناظر کی ٹرانسمیشن شروع ہو گئی۔ 2002 میں سپارکو کے سائنسدانوں نے اسٹیشن کا دورہ کیا اور وہاں جدید ترین سپر کمپیوٹر نصب کیا۔ 2005 میں پاکستان ائیر فورس کے انجینئرز نے وہاں چھوٹی سی فضائی پٹی اور ایک کنٹرول روم قائم کیا۔ جہاں سے اب پاکستان سے آنے جانے والی پروازوں کو مانیٹر کیا جاتا ہے۔
جناح انٹارکٹک اسٹیشن کا مقصد براعظم انٹارکٹیکا کے متعلق مختلف شعبوں میں تحقیق کرنا ہے۔ جس میں ماحولیاتی معائنہ، سمندری حیاتیات اور برف کی ساخت شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی اورموسموں کے پیٹرنز کو سمجھنا شامل ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے براعظم انٹارکٹکا بھی محفوظ نہیں اور برف پگھلنا اور پئنگوئنز کی نقل و حرکت کا تبدیل ہونا جیسے عوامل کا سامنا کر رہا ہے۔ اسٹیشن پر موجود سائنسدان انٹارکٹیکا پہ موسمیاتی تبدیلی سے نبٹنے کے لیے بھی تحقیق کررہے ہیں۔
اس اسٹیشن میں تحقیق کے لیے تجربہ گاہیں، بنیادی سازوسامان اور لیبارٹریز موجود ہیں۔ سائنسدانوں کے رہنے کے لیے کوارٹرز بھی موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹا ہوائی اڈا بھی ہے جہاں سے جہازوں کی آمد و رفت ہوتی ہے۔

یہ ایک اہم سہولت ہے جس کے ذریعے ہم ساتویں براعظم سے منسلک ہوتے ہیں۔ (فوٹو: انسائیکلو پیڈیااینڈ اکیڈیمک ڈکشنریز)

جناح انٹارکٹک اسٹیشن عالمی سطح پہ پاکستانی شراکت داری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ ایک اہم سہولت ہے جس کے ذریعے ہم ساتویں براعظم سے منسلک ہوتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کل کو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے انسان وہاں مستقل رہائش اختیار کرنے کے قابل بھی ہوجائے۔
جامعہ پنجاب کے شعبہ سپیس سائنسس کے پروفیسر ڈاکٹر جہانزیب قریشی نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جناح انٹارکٹک اسٹیشن کا قیام 1991 میں پاکستان کے انٹارکٹک پروگرام کے تحت عمل میں آیا۔ اس کا بنیادی مقصد انٹارکٹیکا کے ماحولیاتی، موسمیاتی اور جغرافیائی پہلوؤں پر تحقیق کرنا ہے۔ یہ پاکستان کو عالمی سائنسی کمیونٹی میں ایک ذمہ دار رکن کے طور پر پیش کرتا ہے جو ماحولیاتی تبدیلی اور زمین کی قدرتی حالت کو سمجھنے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ عالمی سطح پر اس کا فائدہ یہ ہے کہ پاکستان بین الاقوامی تحقیقاتی پروجیکٹس میں شامل ہو کر اپنی سائنسی صلاحیت کو بہتر کر سکتا ہے اور ماحولیاتی تحفظ کے شعبے میں اپنی پوزیشن مضبوط کر سکتا ہے”۔
دوسری جانب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ سپیس سائنسز کے پروفیسر ڈاکٹر زبیر خان کا کہنا ہے کہ “جناح انٹارکٹک اسٹیشن پاکستان کی سائنسی برتری کو نمایاں کرتا ہے۔ یہ اسٹیشن موسمیاتی تبدیلیوں اور قطبی تحقیق میں عالمی تعاون کو فروغ دے رہا ہے، یہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے”۔
جناح انٹارکٹک اسٹیشن میں جاری تحقیقاتی شعبوں پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر جہانزیب قریشی نے کہا کہ پاکستان انٹارکٹیکا میں مختلف سائنسی شعبوں پر توجہ دے رہا ہے، جن میں موسمیاتی، سمندری حیات، جغرافیائی، ماحولیاتی اور بائیولوجیکل تحقیق شامل ہیں۔ موسمیاتی تحقیق میں گلوبل وارمنگ اور اوزون لیئر کے نقصان کے اثرات کا مطالعہ کیا جاتا ہے، سمندری حیات کی تحقیق میں سمندری ایکوسسٹمز اور ان میں رہنے والے جانداروں کا جائزہ لیا جاتا ہے، جغرافیائی علوم میں گلیشیئرز کی حرکت اور زمین کے اندرونی نظام پر تحقیق کی جاتی ہے، بائیولوجیکل تحقیق میں انٹارکٹک خطے میں مائیکرو آرگینزمز اور ان کے ارتقائی عمل کا مطالعہ کیا جاتا ہے، اور ماحولیاتی تحقیق میں برفانی تہوں میں گیسوں کے اثرات اور قدیم ماحولیاتی حالات کا پتہ لگایا جاتا ہے”۔
دوسری جانب ڈاکٹر زبیر خان کا ماننا ہے کہ ” جناح انٹارکٹک اسٹیشن کے ذریعے پاکستان سمندری حیاتیات، ماحولیاتی تبدیلی، برفانی تشکیل اور موسمی پیٹرنز جیسے سائنس کے اہم شعبوں پر توجہ دے رہا ہے”۔
جناح انٹارکٹک اسٹیشن کے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق نتائج اور معلومات پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر جہانزیب قریشی نے کہا کہ ” جناح انٹارکٹک اسٹیشن کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کئی اہم نتائج سامنے آئے ہیں، ادھر سے اوزون لیئر کے حوالے سے ڈیٹا حاصل ہوا ہے، جس نے پاکستان اور دیگر ممالک کو اوزون کی کمی کے اثرات کو سمجھنے میں مدد دی ہے، گلیشیئرز کی پگھلنے کی رفتار اور اس کے سمندر کی سطح پر اثرات کا جائزہ بھی لیا گیا ہے، انٹارکٹک برفانی تہوں میں موجود قدیم گیسوں کی تحقیق سے ماضی کے موسمی حالات کی وضاحت ہوئی ہے، یہ معلومات نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے موسمیاتی سائنسدانوں کے لیے قیمتی ہیں”۔

اس کے ذریعے پاکستان موسمیاتی تبدیلی، گلیشیئرز کے مطالعے اور سمندری حیات پر تحقیق میں قابل قدر کردار ادا کر رہا ہے۔(فوٹو: گوگل)

اس حوالے سے ڈاکٹر زبیر خان کا کہنا ہے کہ” اس اسٹیشن نے برفانی پگھلاؤ، سمندری سطح کے اضافے اور گلوبل وارمنگ کے اثرات پر قابل قدر ڈیٹا فراہم کیا ہے جو مستقبل کی پالیسی سازی میں مددگار رہا ہے”۔
انٹارکٹک اسٹیشن پر موجود سہولیات اور ٹیکنالوجی کی جدت پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر جہانزیب قریشی نے کہا کہ “جناح انٹارکٹک اسٹیشن پر موجود سہولیات میں موسمیاتی سینسرز، برفانی تحقیق کے آلات، اور سیٹلائٹ کمیونیکیشن شامل ہیں۔ اگرچہ ابتدائی طور پر یہ وسائل محدود تھے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی متعارف کرائی گئی ہے، جیسے کہ ڈیٹا کلیکشن کے جدید آلات اور ریموٹ سینسنگ ٹیکنالوجی، مزید اپ گریڈز پاکستان کی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے تعاون سے کیے جاتے ہیں، جو بین الاقوامی تحقیقاتی اداروں کے ساتھ شراکت داری کرکے جدید سہولیات کی فراہمی کو یقینی بناتی ہے”۔
دوسری جانب ڈاکٹر زبیر خان کا کہنا ہے کہ “جناح انٹارکٹک اسٹیشن پر جدید لیبارٹریز، سپر کمپیوٹر اور سیٹلائٹ لنک موجود ہیں، جنہیں وقتاً فوقتاً اپ گریڈ کیا جاتا ہے تاکہ تحقیق کے معیار کو برقرار رکھا جا سکے”۔
اس اسٹیشن کی بہتری پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر جہانزیب قریشی نے کہا کہ “فنی اور تحقیقاتی معاونت، فیلڈ اسٹاف کی تربیت، ماحولیاتی تحفظ اور فنڈنگ جیسے اقدامات سے حکومت اپنا کردار ادا کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے”۔ تاہم پروفیسر زبیر خان کے نزدیک” وزارت سائنس و ٹیکنالوجی اور دیگر ادارے اسٹیشن کو فنڈز، تربیت یافتہ عملہ اور جدید سازوسامان فراہم کر رہے ہیں تاکہ تحقیق کو مزید مؤثر اور عالمی معیار کے مطابق بنایا جا سکے”۔
اس بات میں تو اب کوئی شک باقی نہیں رہا کہ جناح انٹارکٹک اسٹیشن پاکستان کی سائنسی ترقی اور عالمی تحقیق میں شمولیت کا ایک اہم سنگ میل ہے۔ اس کے ذریعے پاکستان موسمیاتی تبدیلی، گلیشیئرز کے مطالعے اور سمندری حیات پر تحقیق میں قابل قدر کردار ادا کر رہا ہے۔ جدید سہولیات اور حکومتی تعاون کے ذریعے یہ اسٹیشن نہ صرف قومی بلکہ عالمی سطح پر بھی پالیسی سازی اور سائنسی ترقی میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔ مستقبل میں اس اسٹیشن کی تحقیق پاکستان کو ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے اور سائنسی میدان میں مزید آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرے گی۔

زین اختر

زین اختر

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس