اسلام آباد میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا اجلاس چیئرمین سینیٹر علی ظفر کی زیر صدارت منعقد ہوا۔
جس میں ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والے غیر اخلاقی مواد، سٹے بازی کی موبائل ایپس اور فحش اشتہارات سے متعلق سینیٹر افنان اللہ خان کی جانب سے پیش کردہ ترمیمی بل پر تفصیلی غور کیا گیا۔

سینیٹر افنان اللہ نے اپنے مؤقف میں کہا کہ موجودہ ٹی وی مواد ہماری سماجی اور اخلاقی اقدار سے متصادم ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اشتہارات میں دکھایا جانے والا لباس معاشرتی طور پر قابل قبول ہے یا نہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ ڈراموں میں شراب نوشی اور منشیات کے مناظر عام ہو چکے ہیں، جبکہ سٹے بازی سے متعلق موبائل ایپس کے اشتہارات بھی کھلے عام نشر ہو رہے ہیں۔
سینیٹر سرمد علی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بل کا بنیادی چیلنج فحش مواد کی قانونی تعریف طے کرنا ہے کیونکہ اس کی تشریح مختلف افراد کے لیے مختلف ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سٹے بازی کی ایپس پر پابندی کا اختیار پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے پاس ہے۔

سینیٹر پرویز رشید نے بھی اس پہلو پر سوال اٹھایا کہ فحاشی اور مہذب لباس کے درمیان حد بندی کون طے کرے گا؟ ان کے مطابق کسی واضح تعریف کے بغیر قانون سازی موثر ثابت نہیں ہو سکتی۔
اجلاس کے دوران چیئرمین پیمرا نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ اب تک چھ ڈراموں اور 32 اشتہارات پر غیر اخلاقی مواد کی بنیاد پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سٹے بازی کی موبائل ایپس کے اشتہارات پر پابندی سے متعلق باقاعدہ حکم نامہ جاری کر کے ان پر سخت نگرانی کی جا رہی ہے۔
سینیٹر افنان اللہ نے سوال کیا کہ اگر پہلے سے قوانین موجود تھے تو ایسے اشتہارات کو نشر ہونے سے کیوں نہیں روکا گیا؟ سینیٹر سرمد علی نے تجویز دی کہ سٹے بازی کے مسئلے پر علمائے کرام کی شرعی رائے بھی حاصل کی جائے۔
افنان اللہ خان نے بحث کے اختتام پر مغربی معاشروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ لباس کی آزادی کے باوجود وہاں سے اخلاقی مسائل ختم نہیں ہوئے۔ بعد ازاں، موجودہ قانونی پیچیدگیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، انہوں نے بل واپس لینے کا اعلان کیا۔