دنیا بھر میں دفتر اور گھر سے بیک وقت کام کرنے کے نئے طریقہ کار کے بعد ادارے اپنے ملازمین کی فلاح و بہبود کے لیے نئے اقدامات کی طرف بڑھنے لگے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اب صرف تنخواہ یا پُرکشش دفاتر کافی نہیں، بلکہ کام اور ذاتی زندگی میں توازن، ذہنی سکون، اور ذاتی ترقی جیسے پہلو مرکزی اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔
ایک مشہور سافٹ ویئر کمپنی Sage کے ماہرین کے مطابق اداروں کو چاہیئے کہ وہ معیاری اعداد و شمار کے ذریعے اپنے ملازمین کی ضروریات کو سمجھیں اور ان کی ذہنی و جسمانی فلاح کے لیے پالیسیوں کو بہتر بنائیں۔
کمپنی کے ایک پروڈکٹ ماہر لیمپروس سیکلیزیوٹس کا کہنا ہے کہ اگر کسی مسئلے کی نشاندہی ہو جائے تو اس کا حل بھی ممکن ہوتا ہے، چاہے وہ کسی تربیتی کورس کے ذریعے ہو یا فلاحی اقدامات کے ذریعے۔
آج کل کئی ادارے مختصر سوالناموں کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا ان کے ملازمین فلاحی سہولتوں سے آگاہ ہیں یا نہیں، اور وہ اپنے کام سے کس حد تک مطمئن ہیں۔ اس کے لیے ایسی کمپیوٹر پر مبنی خدمات استعمال کی جاتی ہیں جو تمام ملازمین کے معاملات کو ایک ہی جگہ پر جمع کر دیتی ہیں۔

ادھر ذاتی ترقی کی اہمیت میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ایک کمپنی نے ایک نئی تعلیمی ایپ متعارف کروائی ہے جو کتابوں، معلوماتی پروگراموں اور دیگر ذرائع سے منتخب کردہ نکات کو صرف پانچ منٹ کے حصوں میں ملازمین تک پہنچاتی ہے۔
اس ایپ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ہر فرد کو اپنی رفتار سے سیکھنے کی سہولت دیتی ہے۔ کمپنی کی ایک اعلیٰ افسر کیٹ ٹریورز کا کہنا ہے کہ یہ ایپ سیکھنے کو دلچسپ، آسان اور مؤثر بناتی ہے۔
ماہرین کے مطابق ادارے اب فلاحی اقدامات کو اپنے روزمرہ کے نظام کا حصہ بنا رہے ہیں۔ کمپنی کے ایک اور ماہر اسٹیو واٹمور کا کہنا ہے کہ جب ملازمین روزانہ کسی سسٹم کو استعمال کرتے ہیں تو وہ نہ صرف اس کے عادی ہو جاتے ہیں بلکہ اسے سیکھنے اور اپنی ترقی کا ذریعہ بھی سمجھنے لگتے ہیں۔
آج کے دور میں فلاحی سہولتیں محض ایک یا دو اقدامات پر مشتمل نہیں رہ گئیں بلکہ اب ادارے اپنے ملازمین کو کئی طرح کے اختیارات دیتے ہیں، جن میں سائیکل کھڑی کرنے کی جگہ، ذہنی سکون کے لیے خاموش گوشے، صحت کی سہولتیں اور سیکھنے کے نئے مواقع شامل ہیں۔
اب ملازمین خود فیصلہ کرتے ہیں کہ انہیں کون سی سہولت فائدہ دے سکتی ہے، اور یہی خود اختیار ہونے کا احساس انہیں خوش اور زیادہ جُڑا ہوا رکھتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ سوچ اب مضبوط ہوتی جا رہی ہے کہ کام اور زندگی کے درمیان توازن کوئی اضافی سہولت نہیں بلکہ ایک بنیادی ضرورت ہے، اور ادارے جو اس ضرورت کو پہچانتے ہیں، وہی کامیابی کی جانب بڑھتے ہیں۔