خیبر پختونخوا جو پہلے ہی تقریباً 700 ارب روپے کے قرض میں ڈوبا ہوا ہے، وہاں حکومتی شاہانہ طرزِ حکمرانی پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
تازہ ترین پیش رفت میں خیبر پختونخوا حکومت نے مزید 27 اراکین اسمبلی کو پارلیمانی سیکرٹری مقرر کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب پہلے ہی صوبائی کابینہ میں وزراء اور مشیروں کی تعداد 33 ہو چکی ہے۔
پارلیمانی سیکرٹریز کو دی جانے والی تنخواہیں، مراعات، گاڑیاں اور دیگر سہولیات کا تمام خرچ سرکاری خزانے سے ادا کیا جائے گا، جس سے صوبے کے مالی بوجھ میں مزید اضافہ ہو گا۔

سیاسی ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات اس ویژن کے خلاف ہیں جس کا دعویٰ تحریک انصاف اور عمران خان ماضی میں کرتے آئے ہیں، جہاں عوامی فلاح، سادگی اور کفایت شعاری کو ترجیح دی جانی تھی۔ مگر عملاً ٹیکس دہندگان کے پیسے سے حکومتی عہدے داروں کی فوج تیار کی جا رہی ہے، جس کا بظاہر عوامی مفاد سے کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا۔
اس فیصلے کے پاس سوشل میڈیا پر عوام کی بڑی تعداد صوبائی حکومت کے اس فیصلے پر تنقیدکر رہی ہے۔ سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ایکس پر ایک صارف نے لکھا کہ “گنڈا پور نہ صرف کرپشن اور پیسہ بنا رہا ھے بلکہ فوج سے مل کر تحریک انصاف کو کچلنے کے لیے مضبوط اقدامات بھی کر چکا ہے، ان جیسوں کے رہتے بھول جائیں پی ٹی آئی والے کہ خان زندہ باہر آ جائے”۔
گنڈا پور نہ صرف کرپشن اور پیسہ بنا رہا ھے بلکہ فوج سے مل کر تحریک انصاف کو کچلنے کے لیے مضبوط اقدامات بھی کر چکا ھے ان جیسوں کے رہتے بھول جائیں پی ٹی آئی والے کہ خان ژندہ بائر ا جائے
— Taab-e-Sukhan (@SukhanTaab13947) July 10, 2025
ایک اور صارف نے کہا کہ “وجہ صاف ظاہر ہے کہ آنے والے دنوں میں پرندے پھل دار درختوں کی طرف نہ جائیں اس لیے پہلے ہی قانونی طور پہ پھل دے دیا گیا”۔

زبیر احمد نامی ایک صارف نے لکھا کہ “یہ صاف صاف سیاسی رشوت ہے علی امین کو ان MPAS پر یقین ہے کہ یہ میرے خلاف عدم اعتماد میں استعمال ہو سکتے ہیں تو ان پر خزانے کی تجوریاں کھول دی ہیں”۔