انڈین پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان نے مودی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مرکزی حکومت پاکستان کے ساتھ رویے میں دہرا معیار اپنا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستانی اداکارہ ہانیہ عامر کی فلم صرف اس لیے انڈیا میں ریلیز نہیں کی جا سکتی کہ وہ پاکستانی ہیں، تو پھر پاکستانی ہاکی ٹیم کو انڈیا بلا کر ایشیا ہاکی کپ میں خوش آمدید کہنا کس منطق کے تحت درست ہے؟
بھگونت مان نے کہا کہ یہ فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ثقافتی تعلقات کو روک دیا جائے اور کھیلوں میں خیرمقدم کیا جائے، اگر ثقافت قومی مفاد کے خلاف ہے تو پھر کھیلوں کی اجازت دینا کیسے جائز ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کی ثقافت، زبان اور فنکار دونوں ممالک کے درمیان پل بن سکتے ہیں، لیکن مرکز اس پل کو خود ہی توڑ رہا ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب ہانیہ عامر اور دلجیت دوسانجھ کی فلم کو روکا جا رہا ہے تو پھر اسٹیڈیم میں پاکستان کے کھلاڑیوں کا استقبال کرنا کس طرح انصاف ہے؟
بھگونت مان نے اسے صرف تضاد نہیں بلکہ ایک خطرناک رجحان قرار دیا، جس کے تحت سرحد کے دونوں طرف کے ثقافتی رشتوں کو ختم کیا جا رہا ہے، مگر کھیلوں کے میدان میں دوہری پالیسی اپنائی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ ہمارا قصور کیا ہے، ہمیں لڑنے کے لیے رکھا ہے، ہمیں بھیڑ بکریاں سمجھ رکھا ہے، وہ پٹھانکوٹ نہیں آئے تھے ان کا ہدف دہلی تھا، ہم نے تو پٹھان کوٹ میں روکا تھا۔ اب آئے تو کہیں گے گزرجائیں ۔
دوسری جانب انڈیا میں پاکستانی ہاکی ٹیم کے خلاف منظم مہم بھی چلائی جا رہی ہے، جس سے کھلاڑیوں کی سیکیورٹی سے متعلق خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے سابق کھلاڑی اور شائقین کا کہنا ہے کہ صرف مکمل سیکورٹی کی یقین دہانی کے بعد ہی ٹیم کو انڈیا بھیجا جانا چاہیے۔
پاکستان کا ہمیشہ مؤقف رہا ہے کہ کھیلوں کو سیاست سے الگ رکھا جائے، مگر حالیہ صورتحال نے یہ سوال پیدا کر دیا ہے کہ کیا انڈیا اس اصول پر خود بھی عمل کر رہا ہے؟