پاکستان میں چینی کی قیمتوں میں نہ رکنے والا اضافہ ہمیشہ سے ہی رہا ہے، مگر حالیہ حکومت میں تو جیسے اسے پر لگ گئے ہوں، ایک سال قبل چینی کی اوسط قیمت 145 روپے 88 پیسے فی کلو تھی، مگر اس وقت یہ قیمت تقریباً 200 روپے تک پہنچ چکی ہے۔
چینی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے عام آدمی کی زندگی مزید مشکل بنا دی ہے۔ چینی جو کبھی 100 روپے فی کلو سے کم میں دستیاب تھی، اب 190 سے 200 روپے فی کلو پر پہنچ چکی ہے۔
وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ملک میں چینی کی اوسط قیمت 188 روپے 44 پیسے فی کلو تک جا پہنچی ہے۔
رپورٹ کے مطابق صرف ایک ہفتے کے دوران چینی کی اوسط قیمت میں 3 روپے 52 پیسے فی کلو کا اضافہ ریکارڈ کیا گیاہے۔ گزشتہ ہفتے یہ قیمت 184 روپے 92 پیسے فی کلو تھی۔ ادارہ شماریات کے مطابق کراچی، اسلام آباد اور راولپنڈی جیسے بڑے شہروں میں چینی کی قیمت زیادہ سے زیادہ 200 روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہے۔
حکومت کی جانب سے قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے متعدد دعوے تو کیے گئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی کی لہر تھمنے کا نام نہیں لے رہی اور یہ کہنا بھی بےجا نہ ہوگا کہ حکومت نے اس میں اضافے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔
عام آدمی جس کا گزر بسر پہلے ہی بڑی مشکل سے ہورہا ہے، اس پر ایک اور بوجھ آن پڑا ہے، جس نے اسے تشویش میں ڈال دیا ہے۔ عوامی حلقوں میں یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ چینی کیوں اور کب مہنگی ہوتی ہے؟ اس کے پیچھے حکومتی ناکامی ہے یا پھر کوئی سیاسی چال، حقیقت کیا ہے؟

پاکستان میں چینی کا مسئلہ کوئی نیا نہیں، یہ تقریباً ہر سال ہر دورِ حکومت میں سر اٹھاتا ہے اور پہلے سے زیادہ شدت سے جنم لیتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ اس کا ایک خاص طریقہ کار ہے۔ پہلے شوگر مافیا کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ ملک میں چینی کی وافر مقدار موجود ہے لٰہذا اسے برآمد کرنے کی ضرورت ہے، حکومت کی اجازت ملتے ہی چینی بیچ دی جاتی ہے اور پھر مارکیٹ میں چینی کی قلت محض چند ماہ میں ہی پیدا ہوجاتی ہے۔
بالکل کسی روایتی ڈرامے کی روایتی اسکرپٹ کی طرح ایک ہی انداز میں گزشتہ کئی عشروں سے یہی چل رہا ہے۔ چینی کی قلت ہونے پر حکومت چینی بیرون ممالک سے درآمد کا فیصلہ کرتی ہے اور سستی ملنے والی چینی کی قیمت کہیں سے کہیں چلی جاتی ہے۔
سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ حکومتِ نے چینی درآمد کرنے کی اجازت صرف ٹی سی پی کو دی ہے اور ہر شخص کو درآمد کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ حکومت نے صرف اپنی کمپنی کو اجازت دی ہے تاکہ وہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھولیں۔ اس کے بعد چوری چکاری ہوگی، چینی ضائع ہوگی، مہنگائی آئے گی اور مقصد پورا ہوجائے گا۔
یہ بات قدرے حیران کن ہے کہ جب برآمد کی بات ہوتی ہے تو یہ دلیل جاتی ہے کہ ملک میں چینی سرپلس ہے اور اس امر کی ضرورت ہے کہ اسے بیچ کر زرِمبادلہ حاصل کیا جائے۔مگر یہ سرپلس محض کاغذوں میں ہوتا ہے، کیونکہ عملی طور پر چینی کی پیداوار اور ملکی کھپت کے درمیان درست اندازہ نہیں لگایا جاتا۔
نجی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ مملکت حذیفہ رحمان کا کہنا تھا کہ حکومت اسی صورت میں چینی کو برآمد کرنے کی اجازت دیتی ہے، جب ملز مالکان کی جانب سے کہا جاتا ہے ان کے پاس چینی اضافی مقدار میں موجود ہے۔ حکومت نے اس بار کوشش کی کہ گنے کی کاشت اس بار پہلے کی نسبت پہلے سے زیادہ ہو اور ایسا ہوا بھی لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پیداوار وہ حاصل نہیں ہوپائی، جس کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔
چینی کی قیمتوں میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری ہے۔ ہر سال کرشنگ سیزن کے دوران چینی کی قیمت کم ہوتی ہے لیکن جون، جولائی کے مہینوں میں ذخیرہ اندوز چینی کو مارکیٹ سے غائب کر دیتے ہیں تاکہ مصنوعی قلت پیدا کی جا سکے اور قیمتیں بڑھائی جا سکیں۔ شوگر مافیا منظم طریقے سے چینی کو ذخیرہ کرکے زیادہ منافع کما رہا ہے، جب کہ عام صارفین اس مہنگائی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔

مارکیٹ ذرائع کے مطابق بڑے گوداموں میں ہزاروں ٹن چینی ذخیرہ کی جاتی ہے، جب قیمت 120 سے 130 روپے فی کلو سے بڑھنا شروع ہوتی ہے تو یہ چینی دوبارہ مارکیٹ میں لائی جاتی ہے، جس سے منافع خوروں کو بھاری فائدہ ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ اس معاملے پر ماضی میں کئی بار تحقیقات کی جاچکی ہیں۔ 2009، 2014، 2017 اور پھر 2020 میں مختلف حکومتوں نے چینی بحران پر کمیشن یا رپورٹیں بنوائیں۔ سب سے مشہور رپورٹ 2020 میں آئی جب ایف آئی اے نے عمران خان کے حکم پر چینی بحران کی تفصیل سے تحقیق کی۔
اس رپورٹ میں واضح بتایا گیا کہ چینی کی برآمد، ذخیرہ اندوزی، سبسڈی اور قیمتوں میں اضافے کے پیچھے طاقتور شوگر مافیا ہے۔ ان پر جرمانے بھی لگے، میڈیا میں نام بھی آئے، لیکن عملی طور پر کوئی بڑی کارروائی نہ ہو سکی۔ کچھ وقت کے لیے شور اٹھا، پھر سب خاموش ہو گیا۔
چینی کی بڑھتی قیمتوں کی ایک اور بڑی وجہ گنے کی کم پیداوار اور شوگر ملز کی پالیسی ہے۔ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے ترجمان وحید چوہدری کے مطابق ملک میں گنے کی پیداوار میں کمی بھی چینی کی قیمتوں میں اضافے کی ایک وجہ ہے۔ رواں سیزن میں کئی کاشتکاروں نے دوسرے فصلوں کی طرف رجحان بڑھا دیا کیونکہ انہیں گنے کی مناسب قیمت نہیں مل رہی تھی۔ اس کے نتیجے میں چینی کی پیداوار کم رہی، جس نے مارکیٹ میں عدم استحکام پیدا کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ شوگر ملز بھی کرشنگ سیزن کو تاخیر سے شروع کرتی ہیں تاکہ چینی کی قیمتیں پہلے سے زیادہ بڑھ سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ چینی کی قیمتوں میں استحکام لانے کے لیے حکومت کو شوگر ملز کی سرگرمیوں پر مزید نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
چینی کی برآمدات اور درآمدات پالیسی بھی قیمتوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت مقامی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے چینی کی برآمد کو محدود رکھتی، تو قیمتیں اتنی زیادہ نہ بڑھتیں۔
حذیفہ رحمان نے اعتراف کیا کہ اس وقت پاکستان کے پاکستان کے پاس 27 لاکھ ٹن کے چینی کے سٹاکس موجود ہیں مگر ذخیرہ اندوز چینی کو ذخیرہ کرلیتے ہیں اور سرمایہ کار طبقہ حکومت کو بلیک میل کرتا ہے، جس کی وجہ سے چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے لیکن حکومت کی چیزوں کو لے کر اپنی ایک اسٹریٹیجی ہوتی ہے۔

خیال رہے کہ چینی کی قیمتوں پر عالمی منڈی اور ڈالر کی قیمت میں اتارچڑھاؤ کا بھی اثر پڑتا ہے۔ عالمی سطح پر چینی کی قیمت میں اضافہ اور ڈالر کی قیمت میں استحکام نہ ہونے کی وجہ سے درآمدی چینی مزید مہنگی ہو چکی ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان میں بھی چینی کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
دوسری جانب چینی کی قیمتوں میں اضافے نے عام شہری کی زندگی کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ پشاور کے شہریوں کا کہنا ہے کہ چینی کی بڑھتی قیمتوں سے ان کی ماہانہ اخراجات میں اضافہ ہو گیا ہے۔
ایک شہری کی شکایت ہے کہ اب تو چائے پینے کے لیے بھی دو بار سوچنا پڑتا ہے۔ پہلے سبزیاں مہنگی ہوئیں، اب چینی بھی پہنچ سے باہر ہے۔ آخر ہم جائیں تو جائیں کہاں؟
علاوہ ازیں گھریلو خواتین کا کہنا ہے کہ چینی کے بغیر ناشتہ مکمل نہیں ہوتا، بچوں کی روٹین خراب ہو رہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ قیمتیں کم کرے تاکہ عام آدمی آسانی سے چینی خرید سکے۔
ادھر تاجروں کا مؤقف ہے کہ ہم بھی مہنگی چینی خرید کر بیچ رہے ہیں، اس میں ہمارا کیا قصور؟ اگر چینی سستی نہیں ہوگی، تو عوام کیسے سستی خریدیں گے؟
چینی کے حالیہ بحران کی وجوہات میں ذخیرہ اندوزی، حکومتی پالیسیوں کی کمزوری اور عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کا اتار چڑھاؤ شامل ہیں۔
شوگر مافیا کے خلاف کارروائیاں وقتی طور پر قیمتوں میں کمی لا سکتی ہیں لیکن مستقل استحکام کے لیے طویل مدتی پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ چینی کی برآمدات پر عارضی پابندی، کسانوں کو بروقت ادائیگیاں اور منصفانہ قیمتوں کا تعین اس بحران کے حل میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
اگر حکومت اور نجی شعبہ مل کر شفاف مانیٹرنگ سسٹم متعارف کرائیں تو قیمتوں کو مستحکم رکھا جا سکتا ہے۔ عوام کو ریلیف دینے کے لیے پالیسیوں میں تسلسل اور سخت عملدرآمد ناگزیر ہے۔