وفاقی حکومت نے واضح کیا ہے کہ نو تشکیل شدہ فیڈرل کا نسٹیبلری کو وفاقی پولیس کے طور پر نہ لیا جائے۔ حکومت کے مطابق یہ اقدام صرف فورس کے ڈھانچے میں اصلاحات کے لیے کیا گیا ہے۔
وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے ایف سی کمانڈنٹ ریاض نذیر گرا کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ یہ وفاقی پولیس ہے یہ فیڈرل کانسٹیبلری ہے۔ ایف سی، ایف سی ہی رہے گی۔

یہ وضاحت اس وقت سامنے آئی جب صدر مملکت آصف علی زرداری نے آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت فرنٹیئر کونسٹیبلری (تنظیم نو) آرڈیننس 2025 جاری کیا جس کے تحت فرنٹیئر کونسٹیبلری کا نام تبدیل کر کے فیڈرل کونسٹیبلری رکھ دیا گیا۔
تنظیم نو سے قبل ایف سی کا نظم و نسق فرنٹیئر کونسٹیبلری ایکٹ 1915 کے تحت وفاقی حکومت کے زیر انتظام تھا اور اس کا صدر دفتر پشاور میں واقع تھا۔ ایف سی کی سربراہی بی ایس 21 کے سینیئر پولیس افسر کے سپرد ہوتی تھی اور اسے ملک بھر میں تعینات کیا جا سکتا تھا۔
وزیر مملکت نے کہا کہ نئی فیڈرل کونسٹیبلری وفاقی حکومت کے ماتحت کام کرے گی اور اس کا ڈھانچہ رینجرز اور پولیس کی طرز پر تشکیل دیا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایف سی میں پورے پاکستان سے بھرتیاں کی جائیں گی اور جدید تقاضوں کے مطابق نئی ونگز قائم ہوں گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ فی الوقت پارلیمنٹ کا اجلاس نہیں ہو رہا اسی لیے صدارتی آرڈیننس جاری کیا گیا ہے تاہم اسے پارلیمنٹ میں بحث کے لیے پیش کیا جائے گا۔ وزیر مملکت نے کہا کہ جس صوبے میں ایف سی کو تعینات کیا جائے گا اس کی حدود اختیار کا تعین بھی وہی صوبہ کرے گا۔
کمانڈنٹ ریاض نذیر گرا کے مطابق تنظیم نو کے بعد فیڈرل کونسٹیبلری کی 41 ونگز ہوں گی جن میں سے 36 سیکیورٹی ڈویژن جبکہ 5 رائٹ سپورٹ ونگ اور ایک اسپیشل پروٹیکشن ونگ فیڈرل ریزرو ڈویژن کے تحت ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ تنظیم نو کا بنیادی مقصد کمانڈ اسٹرکچر میں بہتری عملی ضروریات کی تکمیل اہلکاروں کے حوصلے کی افزائش اور ایف سی کے اندر تقسیمِ کار واضح کرنا ہے۔
آرڈیننس کے تحت فیڈرل کونسٹیبلری کو داخلی سلامتی ہنگامہ کنٹرول انسداد دہشتگردی سیکیورٹی اور اسکارٹ کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اس میں مختلف رینکس کے افسران کی تعیناتی بھی مقررہ طریقہ کار کے تحت کی جائے گی۔
فیڈرل ریزرو ڈویژن میں مختلف اکائیوں سے نمائندگی دی گئی ہے جس میں پنجاب سندھ بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے بیس فیصد آزاد کشمیر سے دس فیصد گلگت بلتستان سے چھ فیصد اور اسلام آباد سے چار فیصد شامل ہوں گے۔
آرڈیننس کے مطابق فیڈرل کونسٹیبلری کو ضابطہ فوجداری 1898 انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 پولیس آرڈر 2002 اور دیگر متعلقہ قوانین کے تحت اختیارات حاصل ہوں گے۔ مزید یہ کہ وفاقی حکومت عام یا خصوصی حکم کے ذریعے ایف سی کے کسی رکن کو کسی بھی درجے کے پولیس افسر کے اختیارات سونپ سکتی ہے۔
آرڈیننس کے تحت ایف سی کو ان علاقوں میں علاقائی ہیڈکوارٹر قائم کرنے کی اجازت بھی ہو گی جہاں اسے تعینات کیا جائے تاکہ کمانڈ اور کنٹرول کے نظام کو مؤثر بنایا جا سکے۔