امریکی محکمہ انصاف کے وکلا ،جو ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں کے خلاف قانونی چیلنجز کا دفاع کر رہی تھی اب اپنے تقریباً دو تہائی عملے سے محروم ہو چکی ہے، ان پالیسیوں میں پیدائشی شہریت پر پابندی اور ہارورڈ یونیورسٹی کی فنڈنگ میں کٹوٹی شامل ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق فیڈرل پروگرامز برانچ کے 110 میں سے 69 وکلاء نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نومبر میں منتخب ہونے کے بعد رضاکارانہ طور پر استعفیٰ دے دیا یا استعفیٰ دینے کا اعلان کیا۔ یہ فہرست محکمہ انصاف کے سابق وکلاء نے مرتب کی تھی۔
یہ اعداد و شمار پہلے منظر عام پر نہیں آئے تھے۔ رائٹرز نے عدالتی ریکارڈ اور لنکڈ اِن پروفائلز کی مدد سے ان میں سے چار کے سوا تمام استعفوں کی تصدیق کی ہے۔
رائٹرز سے بات کرنے والے چار سابق وکلاء اور تین دیگر ذرائع کا کہنا تھا کہ متعدد وکلاء مسلسل مقدمات کا دفاع کرتے کرتے دل برداشتہ اور تھک چکے تھے۔
ایک سابق وکیل نے کہاکہ ہم میں سے کئی لوگ فیڈرل پروگرامز میں آئینی نظام کے دفاع کے لیے آئے تھے۔ ہم اس کے انہدام کا حصہ کیسے بن سکتے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ایگزیکٹو اختیارات کے جارحانہ استعمال میں قانون کو نظر انداز کیا، بشمول سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے اور کانگریس کے بنائے گئے اداروں کو تحلیل کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:انڈیا اور ٹرمپ کو ایک اور دھچکا، اہم اتحادی چین پہنچ گیا
ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ اس کے اقدامات صدارتی اختیارات کے دائرے میں آتے ہیں اور اسے کئی مقدمات میں سپریم کورٹ سے کامیابی بھی ملی ہے۔ وائٹ ہاؤس نے ٹرمپ کے اقدامات کو قانونی قرار دیا اور وکلاء کے استعفوں پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔