برطانوی عدالتی دستاویزات سے انکشاف ہوا ہے کہ حکومت نے ہزاروں افغان شہریوں کو ملک میں دوبارہ آباد کرنے کا ایک خفیہ منصوبہ اُس وقت ترتیب دیا جب ایک سرکاری اہلکار نے غلطی سے 33 ہزار سے زائد افراد کی ذاتی معلومات افشا کر دیں، جس کے نتیجے میں ان افراد کو طالبان کے ہاتھوں انتقامی کارروائیوں کے خطرے کا سامنا کرنا پڑا۔
عالمی نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق لندن کی ہائی کورٹ کے جج نے مئی 2024 میں دیے گئے ایک فیصلے میں، جسے منگل کو عوامی کیا گیا، کہا کہ تقریباً,20 ہزار افغان شہریوں کو برطانیہ میں آباد ہونے کی پیشکش کی جا سکتی ہےاور اس منصوبے پر “کئی ارب پاؤنڈز” کے اخراجات آنے کا امکان ہے۔
برطانیہ کے موجودہ وزیر دفاع جان ہیلی نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ افغان ریسپانس روٹ نامی پروگرام کے تحت اب تک تقریباً 4,500 متاثرہ افراد برطانیہ میں منتقلی کے عمل میں ہیں، جس پر تقریباً 400 ملین پاؤنڈ (540 ملین امریکی ڈالر) خرچ ہو چکے ہیں۔
متاثرہ افراد کی جانب سے برطانوی حکومت کے خلاف عدالتی چارہ جوئی بھی جاری ہے۔ وزارتِ دفاع کی جانب سے ڈیٹا لیک کے معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن کردہ رپورٹ کے خلاصے کے مطابق مئی 2025 تک 16,000 سے زائد متاثرہ افراد کو برطانیہ منتقل کیا جا چکا ہے۔
یہ ڈیٹا لیک اُن افغان شہریوں سے متعلق تھا جنہوں نے افغانستان میں برطانوی افواج کی مدد کی تھی اور یہ معلومات 2021 میں مغربی افواج کے انخلا کے دوران کے پُرتشدد حالات کے پیش نظر انتہائی حساس سمجھی جاتی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں:کیا روسی صدر پیوٹن چین کا دورہ کریں گے؟ شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں اہم ملاقاتوں کی تیاری
ڈیٹا لیک کا انکشاف اُس وقت ہوا جب 2023 میں وزارت دفاع کی جانب سے حاصل کردہ ایک قانونی حکم ختم کیا گیا۔ یہ انجنکشن اس بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا کہ اگر معلومات عام ہوئیں تو ان افراد کو ماورائے عدالت قتل یا شدید تشدد کا سامنا ہو سکتا ہے۔
مزید پڑھیں:ٹرمپ کا یوکرین کو میزائل اور دیگرہتھیار فراہم کرنے کا اعلان
واضح رہے کہ برطانوی افواج افغانستان میں اُس وقت تعینات کی گئیں جب امریکہ نے 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد القاعدہ اور طالبان کے خلاف “وار آن ٹیرر” کے تحت فوجی مہم کا آغاز کیا۔ اس دوران افغانستان میں برطانوی فوجیوں کی تعداد ایک وقت میں 10,000 تک جا پہنچی تھی۔