Follw Us on:

پاکستانی جمہوریت پر ہائبرڈ نظام کا قبضہ: ’ہم یوسفِ زماں تھے، ابھی کل کی بات ہے۔۔۔ تم ہم پہ مہرباں تھے، ابھی کل کی بات ہے‘

مادھو لعل
مادھو لعل
Whatsapp image 2025 07 16 at 1.34.51 am
وزیراعظم کو مکمل آزادی حاصل نہ ہو دو بڑی جماعتیں باری باری اقتدار میں آتی رہیں۔ (فوٹو: فائل)

جمہوریت اور آمریت دونوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں، جہاں جمہوریت ہو، وہاں آمریت نہیں نظر آتی اور جہاں آمریت ہو وہاں جمہوریت کال کوٹھریوں میں بندہوتی ہے، مگر گزشتہ ایک بڑے عرصے سے پاکستان جوکہ ایک جمہوری ملک ہے، ملکی و غیر ملکی سطح پر موضوعِ بحث ہے کہ آیا کہ اس میں جمہوریت ہے یا کہ پھر آمریت کا بول بالا ہے۔

پاکستان میں جمہوریت کے دعوے اور آئینی بالادستی کی باتیں بہت کی جاتی ہیں لیکن جب  یہی سوال عوام کے سامنے  رکھا جائے کہ اس ملک میں اصل طاقت کس کے پاس ہے؟ تو اکثر لوگ جواب دینے سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اس سوال کا صحیح جواب دینا اتنا  آسان نہیں ہے۔

یہ بات اب راز نہیں رہی کہ پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ ساتھ ایک غیر اعلانیہ ڈھانچہ بھی موجود ہے، جسے ہائبرڈ نظام کہا جاتا ہے اس نظام میں منتخب نمائندے موجود تو ہوتے ہیں لیکن اصل فیصلے کہیں اور کیے جاتے ہیں حکومتیں قائم بھی ہوتی ہیں اور گربھی جاتیں ہیں لیکن عوام کو کبھی یہ نہیں بتایا جاتا کہ پس پردہ کیا ہوا۔

محسن نقوی نے کہا تھا کہ ‘ہم یوسفِ زماں تھے، ابھی کل کی بات ہے۔۔۔ تم ہم پہ مہرباں تھے، ابھی کل کی بات ہے’ اور یہی گزشتہ کچھ سالوں سے پاکستان میں دیکھا گیا ہے۔ حکومتیں بناتا کون ہے اور گراتا کون؟ کل جو اچھے تھے آج برے ہوگئے اور ایسا یوں اچانک کیسے ہوا؟ اس کا جواب بھی کوئی نہیں جانتا یا پھرشاید ماننے سے کتراتے ہیں۔

Zia ul haq
پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ ساتھ ایک غیر اعلانیہ ڈھانچہ بھی موجود ہے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان میں موجود ہائبرڈ نظام کی اگر تاریخ دیکھی جائے تو یہ آج کی نہیں۔ اس کی جڑیں ماضی میں جڑی ہیں، جوکہ قیامِ پاکستان کے تقریباً بعد سے ہی بڑھنا شروع ہوگئیں اور یہی وجہ تھی کہ شہید لیاقت علی خان کے دنیا سے جانے کے بعد عدم استحکام کی ایسی سیاسی ہوا چلی کہ کوئی حکومت بھی ٹک نہ پائی اور ایوب خان کے مارشل لاء تک آئے بس وزیرِاعظم ہی بدلتے دیکھے گئے۔

مگر ہائبرڈ نظام کی اصل بنیاد جنرل ضیاالحق کے دور میں ہوئی، جس میں فوجی قیادت خود کو صرف سیکیورٹی کے معاملات تک محدود رکھنے کے بجائے سیاسی فیصلوں میں بھی اہم کردار ادا کرتی رہی۔ ضیاالحق نے اگرچہ براہ راست مارشل لا لگایا لیکن بعد میں ایک سیاسی جماعت بنانے کی بھی سرپرستی کی تاکہ ایک ایسا پارلیمانی ڈھانچہ بنایا جا سکے، جو ان کے مفادات کا تحفظ کر سکے۔

ضیا کے بعد 1988 سے 1999 تک  بظاہر جمہوریت بحال لیکن اسٹیبلشمنٹ نے پس پردہ رہ کر اس بات کو یقینی بنایا کہ کسی بھی وزیراعظم کو مکمل آزادی حاصل نہ ہو دو بڑی جماعتیں باری باری اقتدار میں آتی رہیں لیکن ہر بار ان کا انجام ایک جیسے سیاسی بحران کی صورت میں ہوا۔

1999 میں ایک بار پھر براہ راست مداخلت ہوئی اور جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھال لیا۔ یہ وہ وقت تھا، جب کھل کر دوبارہ یہ کہا جانے لگا کہ ملک میں آمریت آ چکی ہے لیکن 2008 میں جب مشرف رخصت ہوئے تو توقع کی گئی کہ اب جمہوریت مضبوط ہو گی اور فیصلے پارلیمنٹ کرے گی۔

مگر 2008 کے بعد بھی صورتحال میں بہتری نہیں آئی۔ اگرچہ انتخابات   ہوتے رہے اور وزرائے اعظم بھی منتخب ہوتے رہے لیکن ہر حکومت کو دو یا تین سال بعد ہی غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ کبھی کرپشن کے الزامات توکبھی عدالتی کارروائیاں اور کبھی پارلیمانی دباؤ اس دوران اگرچہ اسٹیبلشمنٹ کا کردار کبھی کھل کر سامنے نہیں آیا   لیکن  اس کا سایہ ہمیشہ محسوس ہوتا رہا۔

Liaqat ali khan
پاکستان میں موجود ہائبرڈ نظام کی اگر تاریخ دیکھی جائے تو یہ آج کی نہیں۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر اویس رضا کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہائبرڈ نظام کوئی مفروضہ نہیں بلکہ ایک عملی حقیقت ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ میں منتخب وزیراعظم جب بھی خودمختاری کی کوشش کرتا ہے تو اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں۔  جب تک اس نظام کی اصلاح نہیں کی جاتی تب تک کوئی حکومت مکمل مدت پوری نہیں کر پائے گی۔

یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر ہائبرڈ نظام کو تبدیل کرنا ہے تو اس کو کس طرح  تبدیل کیا جائے  اس حوالے سے ترکیہ کی مثال دی جاتی ہے، جہاں رجب طیب اردوان نے پہلے معیشت پر توجہ دی ساتھ ہی عوامی حمایت حاصل کی اور پھر بتدریج اسٹیبلشمنٹ کےسیاسی کردار کو  محدود کیا۔ اگرچہ بعد میں اردوان پر آمریت پسند ہونے کے الزامات لگے ہیں لیکن  اس کے ساتھ ہی ترک فوج کی سیاسی مداخلت میں نمایاں کمی آئی۔

پاکستان میں بھی اگر کوئی حکومت واقعی اصلاحات چاہتی ہے تو اسے سب سے پہلے معیشت پر توجہ دینا ہو گی تاکہ عوام کا اعتماد حاصل کیا جا سکے کیونکہ جب تک عوامی حمایت  حاصل نہیں ہو گی تب تک کوئی بھی حکومت اسٹیبلشمنٹ کے اثر سے آزاد نہیں ہو پائے گی۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے شہری ندیم نے پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں وزیراعظم تو نظر آتا ہے لیکن فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں جب بھی کوئی لیڈر طاقتور بننے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو ہٹا دیا جاتا ہے اور نیا چہرہ سامنے لایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ووٹ ڈالنے کے باوجود بے اختیار محسوس کرتے ہیں۔

Ayub khan
کب تک حقائق عوام سے چھپا کر کھوکھلے وعدوں اور دعوؤں پر سیاست کریں گی۔ (فوٹو: فائل)

اس سے ایک بات تو واضح ہوتی ہے کہ اگرہمارے حکمران  کوئی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو وہ بھی پاکستان کے اردوان  بن سکتے ہیں کیوں کہ اگر وہ واقعی پاکستان کا بھلا چاہتے ہیں تو عوام تو کب کی تیار ہے ایک ایسی تبدیلی کے لیے جو ان کے بچوں کا مستقبل سنوار دے   ہر حکومت نے اچھی باتیں کی ہیں اور عوام نے سن لی ہیں اب وقت ہے کچھ  کر دکھانے کا   عوام اگر کسی سوشل میڈیا ٹرینڈ کو فالو کر سکتی ہے تو بہتر زندگی کے ٹرینڈ کو کیسے نظرانداز کرے گی۔

سیاسی جماعتیں آخر کب تک حقائق عوام سے چھپا کر کھوکھلے وعدوں اور دعوؤں پر سیاست کریں گی، آخر کب تک ملکی حالات یونہی چلیں گے اور آخر کون آئے گا جو ملک کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کے سفر پر لائے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات ہم میں سے ہر شخص جاننا چاہتا ہےاور وقت ہی بتائے گا کہ ایسا کب ہوگا۔ مگر ایک بات تو طے ہے کہ اگر عوام واقعی روشن مستقبل اور ملکی بہتری چاہتی ہے تو انقلاب لائے ایک ایسا انقلاب جو اپنے نفس سے شروع ہو، جوکہ کرپشن، چوری، رشوت اور حرام خوری کو برا کہے اوراس سےہر شخص کو چھٹکارا دے دے۔

Author

مادھو لعل

مادھو لعل

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس