اسرائیل کی مذہبی سیاسی جماعت یونائیٹڈ ٹوراہ جیوڈازم (یو ٹی جے) نے فوجی بھرتی کے متنازع قانون پر شدید اختلاف کے باعث حکمراں اتحاد سے علیحدگی اختیار کر لی ہے، جس کے بعد وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی پارلیمانی اکثریت نہایت کمزور ہو گئی ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق یو ٹی جے کے چھ ارکان پارلیمنٹ نے پارلیمانی کمیٹیوں اور حکومتی وزارتوں سے اپنے استعفے جمع کرا دیے ہیں۔ یہ احتجاج اس بات پر کیا گیا ہے کہ الٹرا آرتھوڈوکس (انتہا پسند مذہبی) طلباء کو مستقبل میں فوجی سروس سے استثنیٰ دینے کی ضمانت نہ دی جا سکی۔
یو ٹی جے کی اتحادی ایک اور مذہبی جماعت، شاس، بھی حکومت سے علیحدگی کا عندیہ دے چکی ہے، جس کے بعد حکومت اپنی پارلیمانی اکثریت کھو سکتی ہے۔
یو ٹی جے کے ارکان پارلیمنٹ نے کہا ہے کہ ان کی علیحدگی 48 گھنٹوں بعد مؤثر ہو گی، جس سے پہلے نیتن یاہو کو اس بحران کو حل کرنے کا موقع ملے گا ،ایک بحران جو کئی مہینوں سے ان کی حکومت کو درپیش ہے۔

اگر یہ کوشش ناکام بھی ہو جائے، تب بھی اسرائیلی پارلیمنٹ جولائی کے آخر میں گرمیوں کی تعطیلات پر چلی جائے گی، جس سے وزیراعظم کو مزید تین ماہ مل جائیں گے تاکہ وہ کوئی سیاسی حل تلاش کر سکیں، اس سے قبل کہ ان کی حکومت کا وجود خطرے میں پڑے۔
دوسری جانب نیتن یاہو کو قطر میں جاری جنگ بندی مذاکرات پر اپنے اتحاد میں شامل انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کی جانب سے بھی دباؤ کا سامنا ہے۔
یہ بالواسطہ مذاکرات اسرائیل اور فلسطینی تنظیم حماس کے درمیان ہو رہے ہیں، جن کا مقصد غزہ میں جاری جنگ کو 60 دنوں کے لیے روکنا ہے تاکہ حماس کی قید میں موجود نصف باقی ماندہ یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہو سکے اور تباہ حال علاقے میں امداد پہنچائی جا سکے۔ اس کے بعد مذاکرات کے اگلے مرحلے میں مکمل جنگ بندی پر بات چیت ہوگی۔
مزید پرھیں:اسرائیل کے خلاف جنگ کے دوران پاکستان کے ساتھ کو بھلایا نہیں جاسکتا، ایران
تاہم اسرائیلی وزیر برائے قومی سلامتی اتمار بن گویر اور وزیر خزانہ بیتزالل سموٹریچ جنگ جاری رکھنے کے حامی ہیں۔ اس کے باوجود امکان ہے کہ نیتن یاہو کو کابینہ میں جنگ بندی کے لیے درکار ووٹ حاصل ہو جائیں گے۔