موسمیاتی تبدیلی ایک سائنسی، ماحولیاتی اور انسانی مسئلہ ہے جو زمین کے قدرتی موسمی نظام میں طویل المدتی تبدیلیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ صرف درجہ حرارت کے بڑھنے کا نام نہیں، بلکہ اس میں موسموں کی شدت، درجہ حرارت، بارشوں کے انداز، سمندری سطح کی بلندی، گلیشیئرز کے پگھلنےاور قدرتی آفات کے امکانات میں اضافہ شامل ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کی بنیادی وجہ انسانی سرگرمیاں ہیں، جن میں فیکٹریوں، گاڑیوں، پاور پلانٹس اور دیگر صنعتی ذرائع سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسز (جیسا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین، نائٹرس آکسائیڈ وغیرہ) شامل ہیں۔ جب یہ گیسز فضاء میں جمع ہو جاتی ہیں تو وہ زمین کی سطح سے خارج ہونے والی گرمی کو واپس زمین پر بھیجتی ہیں، جس سے زمین کا درجہ حرارت آہستہ آہستہ بڑھنے لگتا ہے، اسے “گرین ہاؤس ایفیکٹ” کہا جاتا ہے۔
انسانی تاریخ کے صنعتی دور، یعنی اٹھارویں صدی کے وسط سے اب تک، زمینی درجہ حرارت میں اوسطاً 1.2 ڈگری سیلسیس کا اضافہ ہو چکا ہے جو بظاہر معمولی لگتا ہے لیکن ماحولیاتی نظام کے لیے یہ ایک بڑا دھچکہ ہے۔ درجہ حرارت میں معمولی تبدیلی بھی بارشوں کے نظام کو غیر متوقع بنا دیتی ہے، مون سون کو غیر متوازن کر دیتی ہے، طوفانوں اور خشک سالی کی شدت بڑھا دیتی ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق اگر عالمی درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سے زائد اضافہ ہواتو دنیا کو ایسی قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑے گا جن سے سنبھلنا مشکل ہو جائے گا۔ پاکستان میں جون اور جولائی 2025 کے مہینوں میں معمول سے کہیں زیادہ بارشیں ہوئیں۔

پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں اربن فلڈنگ، دیہی علاقوں میں زمین کھسکنے اور نشیبی بستیوں میں پانی بھرنے سے درجنوں افراد جاں بحق ہوئے۔ لاہور، فیصل آباد جیسے بڑے شہر نکاسی آب کے ناقص نظام کے باعث بدترین شہری سیلاب کی زد میں آئے۔
پاکستان کے علاوہ دنیا کے کئی خطوں، جیسے چین، انڈیا، یورپ اور امریکا کے مختلف علاقوں میں بھی شدید بارشوں اور طوفانی نظاموں کی وجہ سے غیر معمولی تباہی دیکھی گئی۔ نیویارک، ممبئی، شنگھائی اور لندن جیسے بڑے شہروں میں شہری سیلاب معمول بنتا جا رہا ہے۔
انٹرنیشنل کلائمیٹ سینٹرز کی رپورٹس کے مطابق زمین کا درجہ حرارت بڑھنے سے ماحولیاتی نظام میں توازن بگڑ رہا ہے، جس کی وجہ سے مون سون یا دیگر موسموں کی شدت اور دورانیہ دونوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ماہر موسمیات نادیہ قریشی نے پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بارش کے واقعات میں حالیہ اضافہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا واضح اشارہ ہے، جو انسانی سرگرمیوں اور قدرتی عوامل دونوں سے متاثر ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سائنسی مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج اور دیگر انسانی سرگرمیاں عالمی درجہ حرارت میں اضافے میں کردار ادا کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے موسم کے نمونوں میں تبدیلی آتی ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہمیں پائیدار ترقی کو فروغ دینے، آبی وسائل کو محفوظ کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومتوں، کاروباروں اور شہریوں کو ایک محفوظ اور زیادہ مستحکم مستقبل کی تعمیر کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔
موسمیاتی تبدیلی صرف قدرتی یا سائنسی پہلو تک محدود نہیں، بلکہ اس کے سیاسی، معاشی، اور سماجی اثرات بھی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک، جیسے پاکستان، اس بحران کا سب سے زیادہ شکار ہیں، حالانکہ وہ اس کے ذمے دار ممالک میں شامل نہیں۔
پاکستان عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں صرف 1 فیصد سے بھی کم حصہ رکھتا ہے، لیکن اس کے باوجود یہاں گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، دریا خشک ہو رہے ہیں، زرعی پیداوار کم ہو رہی ہےاور بارشوں کی شدت سے سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور قحط جیسی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔

نادیہ قریشی نے مزید کہا کہ پاکستان اور آس پاس کے علاقے انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئے اثرات کا سامنا کر رہے ہیں۔ جیسے جیسے ہم ترقی کر رہے ہیں، ہم نے قدرتی وسائل کا زیادہ استعمال کیا ہے، جس کے نتیجے میں جنگلات کی کٹائی، آلودگی اور ماحولیاتی انحطاط شامل ہے۔ ہمارے اقدامات، بشمول نقل و حمل سے متعلق آلودگی اور زمینی آلودگی، نے نہ صرف انسانی زندگی کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ کرہ ارض کے درجہ حرارت، ماحولیاتی آلودگی اور ماحولیاتی آلودگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج، جغرافیائی تنوع، موسمیاتی تغیرات اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے یہ ایک خود ساختہ بحران ہے، اور ہر فرد متاثر ہو رہا ہے۔
اس بحران کی ایک اور اہم وجہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی ہے۔ درخت قدرتی طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں اور جب درخت کاٹ دیے جاتے ہیں، تو نہ صرف وہ کاربن کو جذب کرنا بند کر دیتے ہیں، بلکہ ان کے جلنے یا گلنے سے دوبارہ گیسیں فضا میں شامل ہو جاتی ہیں۔ پاکستان میں ہر سال ہزاروں ایکڑ پر محیط جنگلات ختم ہو جاتے ہیں، جو ماحولیاتی توازن کے لیے خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح، پانی کے ذخائر پر قبضے، ندی نالوں پر غیر قانونی تعمیرات، اور زمین کے بے ہنگم استعمال نے ماحولیاتی نظام کو مزید ناپائیدار کر دیا ہے۔
بہاؤالدین زکریا یونیؤرسٹی کےپروفیسر ڈاکٹر اسامہ خالد نے پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کوئی مستقبل کی دھمکی نہیں بلکہ ہمارے حال کا ایک زندہ، سانس لیتا بحران ہے۔ بارشوں کی شدت، درجہ حرارت میں اضافہ، گلیشیئرز کا پگھلنا اور موسموں کے معمولات کا بگاڑ، یہ سب علامات ہیں کہ قدرتی نظام بغاوت کر رہا ہے۔ ہم نے درخت کاٹے، کاربن گیسز خارج کیں، صنعتی ترقی کو ماحول سے مقدم رکھا اور آج اسی زمین سے بدلہ مل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان جیسے ممالک جو خود زیادہ آلودگی کے ذمہ دار نہیں، سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، کیونکہ یہاں نہ وسائل ہیں، نہ تیاریاں اور نہ عوامی شعور شہروں میں گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ، کوئلے اور تیل سے چلنے والے پاور پلانٹس، پلاسٹک کا حد سے زیادہ استعمال، اور صنعتی فضلے کا بغیر کسی ریگولیشن کے زمین اور پانی میں شامل ہونا بھی موسمیاتی تبدیلی کی رفتار کو تیز کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شہری علاقوں میں کنکریٹ اور سیمنٹ کا پھیلاؤ زمین کی گرمی جذب کرنے کی صلاحیت کو ختم کر دیتا ہے، جس سے درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے اور شہری گرمی کی لہر ایک مستقل خطرہ بن جاتی ہے۔
ماحولیاتی ماہرین خبردار کر چکے ہیں کہ اگر عالمی سطح پر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو نہ صرف زمین کا درجہ حرارت مزید بڑھے گا، بلکہ دنیا کو خوراک، پانی، صحت اور سکیورٹی کے بحرانوں کا سامنا ہو گا۔ موسمیاتی تبدیلی کو روکنے کے لیے عالمی معاہدے جیسے “پیرس کلائمیٹ ایگریمنٹ” موجود ہیں، جس کا مقصد درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری سیلسیس سے کم رکھنا ہے، مگر ان معاہدوں پر مکمل عمل درآمد اب تک ممکن نہیں ہو سکا۔
نادیہ قریشی نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم موسمیاتی تبدیلی کے خلاف موثر اقدامات کرنے میں ناکام رہتے ہیں، تو ہمیں آنے والے سالوں میں مزید شدید موسمی واقعات اور آفات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، بشمول بارش اور سیلاب کی شدت میں اضافہ ، بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور ہیٹ ویوز اور زیادہ بار بار قدرتی آفات ان اثرات کو کم کرنے کے لیے فوری اور مستقل کارروائی ضروری ہے

پاکستان جیسے ملک کے لیے موسمیاتی تبدیلی ایک بقا کا مسئلہ ہے۔ ہمیں نہ صرف گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو کم کرنا ہوگا بلکہ ماحولیاتی نظام کو بحال کرنے کے لیے شجرکاری، صاف توانائی، اور پائیدار ترقی کو ترجیح دینی ہوگی۔ تعلیم، میڈیا، اور سول سوسائٹی کو بھی عوام میں ماحولیاتی شعور اجاگر کرنے کے لیے متحرک کردار ادا کرنا ہوگا، کیونکہ یہ بحران اب صرف ماہرین کا موضوع نہیں بلکہ ہر شہری کی زندگی، صحت، اور مستقبل سے جڑا مسئلہ بن چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور میں مون سون کی سب سے زیادہ بارش، گھر کی چھت گرنے سے پانچ افراد جاں بحق، دو زخمی
ہماری زمین چیخ رہی ہے، لیکن ہم اب بھی خاموش ہیں۔ حالیہ بارشیں، سیلاب، اور موسمیاتی تباہ کاریاں کوئی اچانک آنے والی آفت نہیں، بلکہ وہ انتباہ ہیں جو ہمیں برسوں سے دیے جا رہے تھے۔ اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے یا تو ہم لاپروائی کی دلدل سے نکل کر اجتماعی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں، یا آنے والی نسلوں کو ایک خالی، خشک، اور خطرناک زمین وراثت میں دیں۔
مزید پرھیں: ملک بھر میں مسلسل بارش سے نشیبی علاقے زیرِ آب آگئے، لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ بڑھ گیا
پاکستان جیسے ممالک کے لیے وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے، اور بچاؤ کی گنجائش ہر گزرتے لمحے کے ساتھ کم ہو رہی ہے۔ یہ زمین ہم سب کی ہے، اس کا تحفظ بھی ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم خود کو بدلیں، تاکہ موسم ہم پر نہ ٹوٹے، بلکہ ہمارے ساتھ جینے کے قابل ہو جائے۔