غزہ بھر میں اسرائیلی حملوں میں آج اب تک کم از کم 29 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں محصور علاقے کے واحد کیتھولک چرچ پر حملے میں کم از کم تین افراد بھی شامل ہیں۔
اسرائیل کے غزہ کی واحد کیتھولک چرچ پر مہلک حملے کے عینی شاہدین نے عالمی نشریاتی ادارےالجزیرہ سے بات کی، ان میں شادی ابو داؤد، 47 سالہ فلسطینی مسیحی نے بتایا کہ چرچ کے مرکزی ہال میں درجنوں بے گھر افراد، جن میں زیادہ تر بچے اور بزرگ شامل تھے، پناہ لیے ہوئے تھے اور یہ تمام افراد “پرامن شہری” تھے۔
انہوں نے کہاکہ میری والدہ کو سر پر شدید چوٹیں آئیں وہ چرچ کے صحن میں دیگر بزرگ خواتین کے ساتھ ٹہل رہی تھیں جب اسرائیلی افواج نے حملہ کیا۔ ہم اس فضائی حملے سے بالکل بے خبر تھے۔ یہ ایک وحشیانہ اور ناقابل جواز عمل ہے۔
چرچ کے قریب رہائش پذیر 69 سالہ محمد ابو ہاشم نے کہا کہ وہ اپنے گھر کے ملبے میں موجود تھے جب ایک زوردار دھماکہ ہوا اور پورے علاقے کو سیاہ دھوئیں نے گھیر لیا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ اسرائیلی فوج چرچ کو نشانہ بنائے گی۔ اسرائیلی فضائی حملہ بہت زبردست اور انتہائی خوفناک تھا۔ ہم جس دہشت میں جی رہے ہیں، وہ ناقابلِ بیان ہے۔ الفاظ اس درد اور خوف کو بیان نہیں کر سکتے جو ہم سہہ رہے ہیں۔ یہ اُس سے کہیں زیادہ ہے جو آپ ٹی وی پر دیکھتے یا سنتے ہیں۔
فلسطینی وزارتِ خارجہ نے غزہ کی چرچ آف دی ہولی فیملی (جسے لیٹن چرچ بھی کہا جاتا ہے) پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ ایک مکمل جرم ہے جو اسرائیل کی جانب سے جاری نسل کشی کی پالیسی کے دائرے میں آتا ہے۔
مزید پرھیں:ٹرمپ کی قطری وزیراعظم سے ملاقات، کیا غزہ جنگ بندی ممکن ہو پائے گی؟
وزارت خارجہ نےمزید کہا کہ اسرائیل عبادت گاہوں، اسپتالوں، اسکولوں اور پناہ گاہوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے کی پالیسی پر قائم ہےاور وہ ان حملوں کا مکمل طور پر ذمہ دار ہے۔