شام کے جنوبی صوبے السویدا میں دروز جنگجوؤں اور بدو قبائل کے درمیان دوبارہ جھڑپیں جاری ہیں، لڑائی میں اس وقت اضافہ ہوا جب شامی فوج علاقے سے پیچھے ہٹ گئی۔
شامی وزارت داخلہ کے ترجمان نے سرکاری خبر رساں ایجنسی کو بتایا ہے کہ السویدا میں دوبارہ لڑائی روکنے کے لیے حکومت کی جانب سے فوج کی تعیناتی کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
یہ اقدام دروز جنگجوؤں کے ہاتھوں مبینہ طور پر 150 سنی بدوؤں کے قتل کی اطلاعات کے بعد سامنے آیا ہے، دروز کو اسرائیل کی حمایت حاصل ہے۔

شام کی وزارت داخلہ کے ترجمان نے واضح کیا ہے کہ حکومت سویدا میں افواج کی دوبارہ تعیناتی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ یہ بیان سرکاری خبر رساں ایجنسی سانا کے ذریعے جاری کیا گیا۔
وزارت کے ترجمان نورالدین البابا نے ’روئٹرز‘ کی اُس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وزارت داخلہ کے ایک میڈیا افسر کے مطابق سکیورٹی فورسز دروز اکثریتی علاقے سویدا میں دوبارہ تعیناتی کی تیاری کر رہی ہیں تاکہ دروز اور بدو قبائل کے درمیان جاری جھڑپوں کو روکا جا سکے۔
Syrian tribes are literally transporting fighters by truck to Suwayda. pic.twitter.com/8plazLRGRY
— Clash Report (@clashreport) July 18, 2025
نورالدین البابا کا کہنا تھا، ’’ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہوا اور نہ ہی ایسی کوئی تیاری کی جا رہی ہے۔‘‘
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں دروز اقلیت اور سنی بدو قبائل کے درمیان پرتشدد جھڑپوں کے بعد حکومتی فورسز نے سویدا سے انخلاء کیا تھا اور ڈی ڈبلیو کے ذرائع کے مطابق اب علاقے کا کنٹرول مقامی دروز جنگجوؤں کے پاس ہے۔

اس سے قبل خبر رساں ادارے روئٹرز نے شام کی وزارت داخلہ کے ایک ترجمان کے حوالے سے خبر دی تھی کہ سرکاری سکیورٹی فورسز جلد ہی دروز اکثریتی شہر سویدا میں دوبارہ تعینات کر دی جائیں گی۔
اسرائیلی حکام نے کہا ہے کہ انہوں نے شامی حکومت کو جنوبی شام سے اپنی فورسز واپس بلانے کا انتباہ کیا تھا اور واضح کیا ہے کہ وہ اپنی سرحد کے قریب ’’اسلام پسند حکمرانوں‘‘ کو کوئی عسکری قوت جمع کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
اس سے قبل برطانیہ میں قائم اور انسانی حقوق کی نگران غیر سرکاری شامی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے جمعرات کے روز کہا تھا کہ شام کے جنوبی صوبے سویدہ میں حالیہ دنوں میں دروز مذہبی اقلیت اور سنی بدو قبائل کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں کل تک کم از کم 360 افراد ہلاک ہو چکے تھے۔
مزید پڑھیں:اسرائیل کا شام کے صدارتی محل پر حملہ: ’دمشق پر100 میزائل داغے گئے‘
سن 2006 ء سے شام میں حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نگرانی کرنے والی اس تنظیم کا کہنا ہے کہ شام کی سرکاری افواج اب سویدہ شہر اور صوبے سے مکمل طور پر نکل چکی ہیں۔ ان کی جگہ مقامی دروز ملیشیا نے وہاں سکیورٹی کا انتظام سنبھال لیا ہے۔
دروز کون ہیں؟
دروز شام، لبنان، اسرائیل اور مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں میں مقیم عربی بولنے والی ایک مذہبی اقلیت ہیں۔ دروز عقیدہ شیعہ اسلام کی ایک شاخ ہے جس کی اپنی منفرد شناخت اور عقائد ہیں۔
دروز برادری خود کو ’موحدون‘ کہتی ہے، یعنی ’وہ لوگ جو ایک خدا پر یقین رکھتے ہیں۔‘ انھیں ’بنو معروف‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ’دروز‘ نام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ نشتکین الدرزی (محمد بن اسماعیل الدرزی) سے منسوب ہے جنھوں نے لبنان اور شام میں اپنے عقائد کی تبلیغ کی۔

گولان کی پہاڑیوں پر بسنے والے تقریباً 55 ہزار لوگوں میں سے 24 ہزار لوگ دروز ہیں جو خود کو مسلمان کہتے ہیں لیکن مسلمانوں کی اکثریت ان کو مسلمان نہیں مانتی۔
بہت سے دروز اسرائیلی قبضے کے بعد شام کی طرف ہجرت کر گئے۔ یہ فاطمی دور خلافت میں ابھرے۔ انہوں نے ایک الگ روحانی و فکری نظام اپنایا ہوا جو اسلام، یونانی فلسفہ، ہندو مت، بدھ مت اور تصوف سے متاثر ہے۔
گولان کی پہاڑیاں کیوں اہم ہیں؟
1967 سے پہلے تک یہ پہاڑیاں شام کا حصہ تھیں۔ اسی سال ہی 6 دن کی جنگ کے بعد اسرائیل نے ان پہاڑیوں کے زیادہ تر حصے پہ قبضہ کرلیا۔
1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں شام نے اسرائیل سے قبضہ چھڑوانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ 1974 میں اسرائیل اور شام کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوا اوردونوں ممالک کے درمیان بفر زون قائم کیا گیا۔
جہاں اقوامِ متحدہ کی امن فوج کو سیکیورٹی کے پیشِ نظر تعینات کر دیا گیا۔ لیکن 1981 میں اسرائیل کی جانب سے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی اور یہاں آبادکاری شروع کردی۔
شام میں گھسنے والے ہزاروں دروزی واپس جارہے ہیں
— Pakistan Matters (@PK_Matters) July 16, 2025
#Pakistanmatters pic.twitter.com/fdNAyXQDCn
اسرائیلی آباد کاری کو عالمی سطع پہ تسلیم نہیں کیا گیا۔ تا ہم 2019 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گولان کی پہاڑیوں پہ اسرائیل کے قبضے کو تسلیم کیا، اب اسرائیل یہاں 30 بستیاں بسا رہا ہے جن میں تقریباً 31 ہزار لوگ شامل ہیں۔ جن میں زیادہ آباد کار دروز شامل ہیں۔
گولان کی پہاڑیاں دفاعی لحاظ سے نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ ان کا کل رقبہ 1200 مربع کلومیٹر ہے اور شام کے دارالحکومت دمشق سے ان کا فاصلہ صرف 60 کلومیٹر ہے۔
مشرق موسطیٰ میں اپنے منصوبے کی تکمیل کے لیے اسرائیل دروز قبائل کی پشت پناہی کررہا ہے۔ جبکہ شامی حکومت ’بدوقبائل‘ کے ساتھ کھڑی ہے۔