جامعہ کراچی کے ایچ ای جے ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف کیمسٹری کے انڈسٹریل اینالیٹیکل سینٹر کی جانب سے جاری کردہ تجزیاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ حمیرا اصغر دختر اصغر شہزاد کی موت کے حوالے سے جمع کرائے گئے نمونوں میں کسی قسم کے نشہ آور، سکون آور یا زہریلے مادے کے شواہد نہیں ملے۔
پولیس اسٹیشن گزری ضلع جنوبی کراچی کی جانب سے رپورٹ کے لیے جمع کرائے گئے بال، پھیپھڑوں اور جگر کے نمونوں پر گیس کرومیٹوگرافی-ماس اسپیکٹرو میٹری (جی سی-ایم ایس) ٹیسٹ کیا گیا، جس میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ دونوں نمونوں (بال اور اندرونی اعضاء) میں کسی قسم کا نشہ آور، سکون آور یا زہریلا مادہ موجود نہیں۔
یہ نمونے پوسٹ مارٹم نمبر 301/2025 کے تحت 08 جولائی 2025 کو جناح اسپتال کراچی سے جمع کیے گئے تھے، جس میں مقتولہ کی شناخت حمیرا اصغر کے نام سے کی گئی۔
رپورٹ 16 جولائی 2025 کو جاری کی گئی ہے اور اسے ایچ ای جے کے تحقیقی افسران اور کو پرنسپل انویسٹی گیٹر نے باقاعدہ دستخط کے ساتھ تصدیق کیا ہے۔

واضح رہے کہ رپورٹ صرف ان نمونوں سے متعلق ہے جو لیب میں فراہم کیے گئے تھے اور سیمپلنگ کا عمل ایچ ای جے کے عملے نے انجام نہیں دیا۔
یاد رہے کہ حمیرا اصغر کی لاش 8 جولائی کو کراچی میں کرائے کے فلیٹ سے ملی تھی، جہاں وہ 2018 سے تنہا رہائش پذیر تھیں، ان کی موت تقریبا 10 ماہ قبل ہونے کا انکشاف ہوا تھا۔
مزید پڑھیں: اداکارہ حمیرا اصغر کی موت، آخری مرتبہ 75 نمبروں سے بار بار رابطہ، فون کرنے والے کون تھے؟
اداکارہ دو کمروں کے فلیٹ میں 2018 سے رہائش پذیر تھیں، 2019 میں ہی ان کے کرائے کے مسائل شروع ہوگئے تھے لیکن مئی 2024 کے بعد انہوں نے کرایا دینا بند کردیا تھا۔ کرایہ نہ ملنے پر مالک مکان نے عدالت سے رجوع کیا تھا، اداکارہ کے موبائل بند ہونے پر یا اچانک لاپتہ ہونے پر بھی کسی نے پولیس کو مطلع نہیں کیا تھا۔
پولیس نے کہا تھا کہ اداکارہ کی لاش دوسرے کمرے سے ملی جب کہ ان کا موبائل دوسرے کمرے میں موجود تھا، جائے وقوع سے تشدد کے شواہد نہیں ملے، کسی طرح کی کوئی منشیات برآمد نہیں ہوئی۔