ایران اور اسرائیل کے درمیان بارہ دن جاری رہنے والی حالیہ جنگ کے خاتمے کے بعد ایک بار پھر ایران کے جوہری پروگرام پر عالمی سفارتی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔ امریکا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایران سے جوہری معاہدے کے لیے اگست کے اختتام تک کی مہلت طے کی ہے۔ اگر اس دوران معاہدہ نہ ہو سکا تو اقوام متحدہ کی وہ پابندیاں دوبارہ لاگو کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جو 2015 کی ڈیل کے تحت ختم کر دی گئی تھیں۔
اسی مہلت کے ساتھ ہی عالمی سطح پر کئی سوالات نے جنم لیا ہے، سیاسی حلقوں میں یہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ کیا ایران کے لیے ابھی جنگ ختم نہیں ہوئی، کیا ایران پر سفارتی دباؤ دیا جارہا ہے یا پھر یہ کسی نئی جنگ کا آغاز ہے اور کیا اپنی حفاظت کے لیے اقدامات کرنا ایران کے لیے ناگزیر ہوچکا ہے؟
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اپنے برطانوی فرانسیسی اور جرمن ہم منصبوں سے رابطہ کر کے ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل پر اتفاق کے لیے آخری مہلت پر اتفاق کیا۔ اس فیصلے کا اعلان ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب ایران واضح طور پر یورینیم افزودگی ختم کرنے سے انکار کر چکا ہے اور امریکی شرائط کو مسترد کر چکا ہے۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے مشیر علی ولایتی نے ایرانی سرکاری خبر رساں ادارے ارناسے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر مذاکرات کی شرط افزودگی کا خاتمہ ہے تو یہ مذاکرات کبھی نہیں ہوں گے۔ ایران پرامن جوہری توانائی کا حق نہیں چھوڑے گا۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے بھی کہا کہ امریکا کے ساتھ بات چیت کے لیے نہ کوئی تاریخ طے ہوئی ہے نہ کوئی مقام اور نہ ہی ایران کے سینئر سفارت کار عباس عراقچی اور امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف کی ملاقات کا کوئی شیڈول موجود ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران اور اسرائیل کی جنگ نے پہلے ہی خطے کو شدید کشیدگی میں دھکیل دیا ہے اور اب سفارتی سطح پر بڑھتا ہوا دباؤ ایک نئی محاذ آرائی کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔
پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ عالمی امور پروفیسر ارسلان رتھوڑ کا کہنا تھا کہ ایران کو دی گئی ڈیڈلائن بظاہر سفارتی عمل کا حصہ لگتی ہے لیکن اس کے پیچھے طاقت کی زبان جھلکتی ہے۔ اگر فریقین نے لچک نہ دکھائی تو ایک اور ٹکراؤ خارج از امکان نہیں۔ ایران کی حالیہ سخت پوزیشن بتاتی ہے کہ وہ اس بار کسی بیرونی دباؤ میں نہیں آنے والا۔
عالمی سیکیورٹی کے امور کے محقق تیمور جاوید نے کہا ہے کہ اگر یہ معاہدہ اگست تک طے نہ پایا تو ایران پر پابندیوں کا دوبارہ نفاذ خطے کی معیشت اور استحکام کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔ 2015 کا معاہدہ وقتی ریلیف ضرور لایا تاہم اب فریقین کے درمیان اعتماد کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک شہری اسامہ شاہد نے پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا ہمیں ہر کچھ عرصے بعد یہی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ ایران پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے یا پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ بڑی طاقتیں خود کسی معاہدے کی پاسداری نہیں کرتیں اور الزام ہمیشہ ایران پر ڈال دیا جاتا ہے۔

اگر ایران اور عالمی طاقتیں مذاکرات کی میز پر واپس نہ آ سکیں تو خطے میں پہلے سے جاری کشیدگی نئی جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔ اگست کی ڈیڈلائن اب محض ایک تاریخ نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ کے مستقبل کے فیصلے کی گھڑی بن چکی ہے۔
اب اگر ایران نے جوہری مذاکرات نہ کیے تو کیا عالمی طاقتیں مل کر ایران پر حملہ کریں گی یا پھر ایک بار پھر ایران پر پابندیاں لگائی جائیں گی اور پاکستان کا اس پر مؤقف کیا ہوگا؟ ان سوالات کے جواب تو وقت ہی بتائے گا، مگر ایک بات تو طے ہے کہ اس کا نتیجہ تسلی بخش نہیں ہوگا اور عالمی طاقتیں ایران کے خلاف کوئی مضبوط لائحہ عمل اپنائیں گی۔