غزہ میں امدادی سامان لینے کے لیے مرکز کی جانب جانے والے شہریوں پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے کم از کم 32 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
غزہ کے نصر ہسپتال نے تصدیق کی ہے کہ واقعہ سنیچر کی صبح پیش آیا۔ اسرائیلی فوج کا مؤقف ہے کہ انہوں نے مشتبہ افراد کو روکنے کے لیے انتباہی گولیاں چلائیں، لیکن وہ نظرانداز کر کے آگے بڑھتے رہے، حالانکہ امدادی مرکز اس وقت فعال نہیں تھا۔
غزہ کے شہری محمد الخالدی کا کہنا ہے کہ وہ بھی اسی مرکز کی طرف جا رہے تھے اور فائرنگ سے پہلے کوئی تنبیہ نہیں دی گئی۔ ان کے بقول، وہ سمجھے کہ فوجی امداد کی تقسیم کے لیے نظم قائم کرنے آ رہے ہیں، لیکن اچانک گاڑیوں اور ٹینکوں سے فائرنگ شروع ہو گئی۔
ادھر امریکا کے حمایت یافتہ ادارے غزہ ہیومنٹیرین فاؤنڈیشن نے واقعے کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ سنیچر کے روز ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
ان کا دعویٰ ہے کہ اسرائیلی فائرنگ سے ہلاکتیں امدادی مرکز کھلنے سے کئی گھنٹے پہلے اور کئی کلومیٹر دور ہوئیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شہریوں کو اندھیرے میں مرکز کے قریب جانے سے خبردار کیا گیا تھا۔

اسرائیلی فوج نے واقعے کی تحقیقات کا عندیہ دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے غزہ ہیومنٹیرین فاؤنڈیشن کے امدادی ماڈل کو غیر محفوظ قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ عالمی معیارات کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اسرائیلی فوج پر الزام ہے کہ وہ امدادی سامان عسکریت پسندوں کو پہنچانے دیتی ہے، تاہم حماس ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق دفتر کے مطابق گزشتہ چھ ہفتوں میں غزہ کے امدادی مراکز کے قریب 875 افراد شہید ہو گئے، جن میں زیادہ تر ہلاکتیں غزہ ہیومنٹیرین فاؤنڈیشن کے مراکز کے قریب ہوئیں۔ مزید 201 افراد امدادی قافلوں کے راستوں میں شہید ہوئے۔
غزہ ہیومنٹیرین فاؤنڈیشن نے ان اعداد و شمار کو غلط اور گمراہ کن قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ بدترین واقعات اقوام متحدہ کے قائم کردہ مراکز میں پیش آئے ہیں۔ فاؤنڈیشن نے اقوام متحدہ کے تازہ اعداد و شمار پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
اسی روز اسرائیلی فضائی حملوں میں مزید 18 فلسطینی شہید ہوگئے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے مختلف مقامات پر عسکریت پسندوں کے ہتھیاروں کے ذخائر اور سنائپر پوزیشنز کو نشانہ بنایا۔