وہ صحرائی مقتل جب بپھرے ہوئے دن کے سورج تلے آتش فشاں کی مانند دہک رہا تھا، وہاں ایک وجود اُتر رہا تھا۔ نہ خوف کے سائے، نہ لرزتے قدم، نہ فریاد کی آہٹ۔ بڑی سی چادر اوڑھے، سرخ جوڑا پہنے، دراز قد شیتل جیسے قیامت سے پہلے کا ایک لمحہ بن چکی تھی۔ ریت پر چھائے سناٹے میں اس کے قدموں کی چاپ نہیں، صرف صبر کی گونج سنائی دیتی تھی۔ وہ کچھ تھامے ہوئے تھی۔ نہیں، وہ صرف قرآن مجید تھامے ہوئے تھی۔ اس کی انگلیاں لرز نہیں رہیں تھیں، وہ تھامنا نہیں، اپنے خالق کو لوٹانا چاہتی تھی۔ شاید وہ جانتی تھی کہ اب زمین کا فیصلہ مکمل ہونے کو ہے،اب آسمان پر رجوع لکھا جائے گا۔
شیتل، اس بے آواز صحرا میں آخری صدا بن گئی۔ اس کے لب بند تھے، پر اس کا وجود بول رہا تھا۔ وہ بولا، جب اُس نے بندوق برداروں کو دیکھا۔ بڑی بڑی پگڑیاں، سر پر سجی غیرتوں کی مورت مگر اندر خالی، محض بارود، محض سفاکی۔ شیتل نے انہیں دیکھا اور صرف ایک جملہ کہا “تمہیں صرف گولی مارنے کا حق ہے، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔”وہ جملہ جیسے صدیوں کے درد کو ایک پل میں سمو گیا۔ کیا یہ کوئی نعرہ تھا؟ نہیں،یہ تازیانہ تھا، ان کے چہروں پر جو جبر کی چادر اوڑھ کر غیرت کے دعویدار بنتے ہیں۔ قرآن شیتل کے ہاتھ میں تھا۔ وہ کتاب، جس نے ماں کو عزت دی،بیٹی کو مقام دیا، بہن کو تحفظ دیا اور عورت کو رب کی نشانی بنا کر پیش کیا۔
وہی کتاب، جس نے کہا تھا”جب زندہ دفن کی گئی بیٹی سے پوچھا جائے گا کہ اسے کس جرم میں قتل کیا گیا؟”شیتل نے وہ کتاب اپنے قاتلوں کے سپرد کی۔ شاید وہ کہنا چاہتی تھی”اگر تم واقعی مسلمان ہو، اگر تم نے اس کتاب کو کبھی چھوا بھی ہے تو اس کے فیصلے سے پہلے میرا فیصلہ مت کرو۔”وہ صحرا،جسے بارود نے پیاسا کیا تھا، آج شیتل کے خون سے سیراب ہو رہا تھا۔ ریت اس کے لہو میں بھیگتی گئی اور صحرا میں دفن وہ ساری چیخیں،جو سالوں سے خاموش تھیں،باہر نکل آئیں۔
شیتل کی قربانی کوئی عام قتل نہیں تھی۔ یہ ایک بیٹی کا قتل تھا، جو قرآن کو سینے سے لگا کر گئی۔ یہ اس نسل کی بیٹی کا قتل تھا، جو صدیوں سے دیوارِ ستم سے سر ٹکرا رہی ہے۔ یہ اس بے آواز عورت کی شہادت تھی، جو ہر خندق سے،ہر بستی سے،ہر قبر سے اٹھتی ہے اور سوال کرتی ہے”میں کس جرم میں ماری گئی؟”بلوچستان کے پہاڑ، جو صدیاں خاموش رہے، آج گریہ کر رہے ہیں۔ گوادری ساحلوں پر لہریں ماتم کناں ہیں۔ مستونگ کی سنگلاخ زمین، تربت کے جلے ہوئے کھنڈرات، پنجگور کے اجڑے راستے، سب گواہ ہیں کہ شیتل صرف ایک نام نہیں، وہ ایک سوال ہے،وہ ایک داستان ہے، جو ہر غیرت کے دعوے دار سے، ہر مذہب کے ٹھیکے دار سے اور ہر حکومتی ایوان سے پوچھتی ہے: “کیوں؟”کیا وہ صرف بلوچ تھی؟نہیں۔
وہ اس دھرتی کی بیٹی تھی، جو ہمیشہ اپنے جسم پر ظلم کے نقش لیے گھومتی رہی۔ کبھی اس کے بھائی غائب ہوتے ہیں، کبھی اس کے باپ پر غداری کے فتوے لگتے ہیں، کبھی اس کے بیٹے ملبے تلے دفن ہوتے ہیں اور اب بیٹیاں بھی بے دردی سے مار دی جاتی ہیں، ان کے ہاتھ میں قرآن ہو یا کلمہ۔ کیا جرم تھا اس کا؟ کیا یہ جرم تھا کہ وہ تعلیم یافتہ تھی؟کیا یہ جرم تھا کہ وہ جابر سماج کے خلاف آواز بننے لگی تھی؟ یا یہ کہ وہ بندوقوں کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں تھی؟ شیتل کے جانے کے بعد ایک خاموشی نہیں چھائی، ایک فریاد ابھری ہے۔ ۔اس کی تصویر، اس کے خون میں بھیگا ہوا قرآن،۔ اب ہر دل کی دہلیز پر سوال بن کر کھڑا ہے۔
وہ سوال جو ٹی وی پر نہیں آتا۔ وہ سوال جو اسمبلی کے فلور پر سنائی نہیں دیتا۔ وہ سوال جسے ریاست بھی سننے سے انکاری ہے۔ ریاست تو خاموش ہے مگر وہ ماں نہیں، جس کی بیٹی کو دن دہاڑے مار دیا گیا۔ وہ باپ خاموش نہیں،جس نے بیٹی کو قرآن کے سائے میں پلتے دیکھا۔ وہ بہن نہیں، جس نے خوابوں میں اپنی بہن کو مسکراتے دیکھا تھا اور وہ بیٹا بھی نہیں،جو کل کو اپنی ماں،بہن یا بیوی کے ہاتھ میں کتاب اللہ دیکھ کر محفوظ سمجھتا تھا۔ کتنا آسان ہے کسی کو مار دینا۔ بندوق اٹھاؤ، گولی چلا دو اور ختم۔ مگر شیتل کو مارنا اتنا آسان نہیں تھا۔ اس نے جاتے جاتے قاتلوں کو بے نقاب کر دیا۔ وہ لوگ جو خود کو خدا کی زمین پر خدا سمجھ بیٹھے ہیں۔ وہ لوگ جو مذہب کے نام پر عورت کی عزت کی چادر چھین کر، اسے قتل کرتے ہیں ۔ وہ لوگ جو غیرت کے نام پر بے غیرتی کی آخری حدیں پار کرتے ہیں۔
شیتل کا قتل کسی ایک عورت کا قتل نہیں۔ یہ اس نظریے کا قتل ہے، جو محبت، علم، برداشت اور شرافت پر مبنی تھا۔ اور یہ صرف شیتل کی بات نہیں۔ کل کسی اور کا نام ہو گا، کل کسی اور ماں کی کوکھ اجڑ جائے گی، کسی اور گلی میں خون بہے گا،کسی اور مدرسے کی دیواروں پر سناٹا چھا جائے گا۔ مگر شیتل کے بعد اب سوال رکیں گے نہیں۔ جو لوگ قرآن کو ہتھیار کے مقابل رکھتے ہیں، وہ شاید شیتل سے سبق سیکھ لیں۔ شاید انہیں یاد آ جائے کہ یہ کتاب اللہ صرف پڑھنے کی نہیں، سمجھنے کی ہے۔ شاید وہ جان لیں کہ عورت صرف جسم نہیں، روح ہوتی ہے۔ شاید وہ جان جائیں کہ حیا، غیرت، عزت، یہ سب الفاظ عورت سے ہی جڑے ہیں اور جب عورت کے وجود کو پامال کیا جاتا ہے تو یہ الفاظ بھی مر جاتے ہیں۔ شیتل کی قبر جہاں بھی بنے، وہ قبر محض ایک مٹی کا تودہ نہیں ہو گی۔ وہ عدل کا کٹہرہ ہو گی۔ کل قیامت کے دن وہی شیتل، ہاتھ میں قرآن لیے اپنے قاتلوں کے گریبان پکڑے گی۔
اور اللہ کے عرش کے نیچے وہی آیت پڑھی جائے گی:
“وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ۔ بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ؟”
“جب زندہ دفن کی گئی بیٹی سے پوچھا جائے گا، کہ وہ کس جرم میں ماری گئی؟”
شیتل کو دفنانے سے پہلے شاید کسی نے اس کا قرآن دوبارہ کھولا ہو۔ شاید کسی نے صفحے الٹے ہوں۔ شاید کسی آیت پر انگلی رک گئی ہو، شاید وہ آیت چیخ اٹھی ہو اور شیتل کے قاتل؟وہ شاید جشن مناتے ہوں،شاید وہ گمان رکھتے ہوں کہ وہ جیت گئے مگر نہیں۔ وہ ہار چکے ہیں۔کیونکہ شیتل مر کر بھی زندہ ہے۔ قرآن کے ساتھ،خلوص کے ساتھ،خون کے ساتھ اور یہ خون چیخے گا،جب تک انصاف زندہ ہے۔ یہ سوال گونجے گا،جب تک زمین پر کوئی انسان باقی ہے۔ کیا ہم سن رہے ہیں؟یا ہم بھی ان قاتلوں کی طرح خاموشی کے پگ پہنے، اپنی روحوں کو قتل کر چکے ہیں؟