ممبئی ہائی کورٹ نے 2006 کے 7/11 ممبئی ٹرین بم دھماکوں کے مقدمے میں تمام 12 ملزمان کو بری کر دیا ہے جنہیں 2015 میں انسداد منظم جرائم عدالت نے سزائیں سنائی تھیں۔
عدالت نے قرار دیا کہ ریاستی انسداد دہشت گردی اسکواڈ اے ٹی ایس ملزمان کے خلاف الزامات کو معقول شک سے بالاتر ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔

یہ فیصلہ جسٹس انیل ایس کلور اور جسٹس شیام چندک پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 671 صفحات پر مشتمل فیصلے میں سنایا۔ ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جس میں پانچ ملزمان کو سزائے موت اور سات کو عمر قید سنائی گئی تھی۔ ایک ملزم کو خصوصی عدالت پہلے ہی بری کر چکی تھی۔
واضع رہے کہ یہ بم دھماکے 11 جولائی 2006 کو شام تقریباً ساڑھے چھ بجے ممبئی کی مغربی ریلوے کی لوکل ٹرینوں میں ہوئے تھے جن میں سات مختلف مقامات پر بم پھٹے۔ ان حملوں میں 189 افراد ہلاک اور 824 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ بم دھماکوں میں پریشر کُکرز استعمال کیے گئے تھے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ مقدمے میں پیش کیے گئے شواہد ناقابل اعتبار ہیں اور گواہوں کی شہادتوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت کے مطابق ٹیکسی ڈرائیوروں سمیت کئی گواہوں نے واقعے کے 100 دن بعد اپنا بیان دیا۔
عدالت نے اس تاخیر پر سوال اٹھایا اور کہا کہ اس دوران ملزمان کی شناخت کیسے ممکن ہوئی۔عدالت نے ٹیسٹ آئیڈینٹیفیکیشن پریڈ کو بھی غیر قانونی قرار دیا کیونکہ یہ کارروائی ایک ایسے افسر نے کی تھی جس کو یہ اختیار حاصل نہیں تھا۔

بم بنانے کے گواہ نے عدالت میں جرح کے دوران اپنا بیان بدل لیا تھا اور کہا تھا کہ وہ خود موقع پر موجود نہیں تھا بلکہ اس کے دوست نے اسے بتایا تھا۔
عدالت نے بم بنانے یا رکھنے کے حوالے سے بھی شواہد کو ناکافی قرار دیا۔ عدالت نے کہا کہ سرکٹ بورڈز اور دیگر مواد کی برآمدگی کو ثابت کرنے کے لیے تحویل اور سیل کے درست ریکارڈ موجود نہیں تھے۔ ایف ایس ایل رپورٹ کے لیے شواہد مکمل نہیں تھے۔
ملزمان کے اعترافی بیانات کو بھی عدالت نے ناقابل قبول قرار دیا۔ عدالت نے کہا کہ ان بیانات کے ریکارڈ کرنے میں ضابطے پورے نہیں کیے گئے۔ ایم سی او سی اے کے تحت مطلوبہ رضامندی کا سرٹیفکیٹ بھی موجود نہیں تھا۔
عدالت نے ای ایم اور بھابھا اسپتال کے میڈیکل شواہد کا جائزہ لے کر کہا کہ ان سے ملزمان پر ممکنہ تشدد کے آثار ظاہر ہوتے ہیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا اگر کسی جرم کے اصل مجرم کو سزا دی جائے تو یہ قانون کی حکمرانی اور معاشرے کے تحفظ کے لیے اہم قدم ہوتا ہے۔ لیکن جب کسی مقدمے کا جھوٹا اختتام پیش کیا جائے اور کہا جائے کہ ملزموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا گیا ہے تو یہ سچائی کو چھپانے کے مترادف ہے۔