اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس میں جواب جمع نہ کرانے پر وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی کابینہ کے دیگر ارکان کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیئے ہیں۔
12 جولائی کواسلام آباد ہائی کورٹ نےڈاکٹر عافیہ کی رہائی، صحت اور وطن واپسی سے متعلق کیس میں وفاقی حکومت کی رپورٹ پیش کرنے میں ناکامی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا، جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے رپورٹ پیش نہ کرنے کی صورت میں ” پوری کابینہ کو طلب کرنے ” کی دھمکی دی,انہوں نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی درخواست پر سماعت کی اور تحریری حکم جاری کر دیا۔
جسٹس سردار اسحاق نے ریمارکس میں کہا کہ چھٹیاں ختم ہونے کے بعد پہلے ورکنگ ڈے پر کیس کی آئندہ سماعت ہوگی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کا روسٹر چیف جسٹس آفس ہینڈل کرتے ہیں، حکومت نے سپریم کورٹ میں میرے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی ہوئی ہے، جج اگر چاہے بھی تو چھٹیوں میں کام نہیں کرسکتا۔
انہوں نے کہا کہ میری چھٹیاں آج سے شروع ہونی تھیں، میں نے فوزیہ صدیقی کیس دیگر کیسز کے ساتھ آج مقرر کیا تھا، جمعرات کو بتایا گیا کازلسٹ جاری نہیں ہوگی جب تک کازلسٹ میں تبدیلی نہیں کی جاتی، میں نے پرسنل سیکریٹری سے کہا کہ کازلسٹ سے متعلق چیف جسٹس کو درخواست لکھو، چیف جسٹس کو 30 سیکنڈز بھی درخواست پر دستخط کرنے کے لیے نہیں ملے۔
دوران سماعت جسٹس سردار اسحاق نے کہا کہ ماضی میں ججز کا روسٹر مخصوص کیسز کے فیصلوں کے لیے استعمال ہو چکا ہے، فوزیہ صدیقی پاکستان کی بیٹی ہیں، اپیل سپریم کورٹ میں مقرر ہے، جج چھٹی کے دن عدالت میں انصاف مہیا کرنے کے لیے بیٹھنا چاہتا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کا کہنا ہے کہ ایک بار پھر ایڈمنسٹریٹیو پاور کو جوڈیشل پاور کے لیے استعمال کیا گیا، میں انصاف کو شکست کا سامنا نہیں کرنے دوں گا، ہائیکورٹ کی عزت کو برقرار رکھنے کے لیے میں اپنی جوڈیشل پاورز کا استعمال کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ روسٹر تبدیل کرنے سے متعلق پرسنل سیکریٹری نے بتایا، میں نے پرسنل سیکریٹری کو کہا، ’چیف جسٹس کو خط بھیج دو کیونکہ آج چند کیسز مقرر تھے، فوزیہ صدیقی کا کیس الگ نوعیت کا ہے۔‘
مزید پرھیں:بلوچستان میں قتل کیے گئے مقتولین کے درمیان کوئی ازدواجی رشتہ نہیں تھا، وزیر اعلیٰ بلوچستان
جسٹس سردار اسحاق نے ریمارکس دیے کہ وفاقی کابینہ کے ہر ممبر کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتا ہوں، میں نے کہا تھا رپورٹ نہ آئی تو توہین عدالت کی کارروائی شروع کروں گا۔
وکیل عمران شفیق نے کہا کہ اگر حکومت نے اسٹے لینا ہوتا تو ابھی بینچ بھی بن جاتا، ہمیں معلوم ہے کہ کیسے ہائیکورٹ چل رہی ہے، آپ کا آرڈر موجود ہے، کیس آپ کی عدالت میں آج مقرر ہے۔
جج نے کہا کہ معلوم نہیں ابھی تک آپ کا کیس کیسے سپریم کورٹ میں نہیں لگا، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ میں کیس نہیں لگے گا کیونکہ وہاں جسٹس منصور علی شاہ موجود ہیں، کیس تب لگے گا جب ججز کا روسٹر تبدیل ہوجائے گا