Follw Us on:

بلوچستان میں مرد وعورت کا قتل:  واقعہ پر نئی بحث کا آغاز، پردے سے کیوں جوڑا جارہا ہے؟

احسان خان
احسان خان
Whatsapp image 2025 07 21 at 11.48.38 pm
مسجد میں ایک پٹھان مرد نے اسے بار بار غیر مناسب انداز میں گھورا۔ (فوٹو: فائل)

بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والے جوڑے کے واقعہ کے بعد ایک نئی بحث نےجنم لیا ہے۔ یہ بحث صرف معاشرتی روایات تک محدود نہیں رہی بلکہ ’پردے‘ پربحث ہورہی ہے، سوشل میڈیا پرایک غیرمسلم خاتون نے پٹھان قوم کے پردے سے متعلق رویوں پر تنقید کی اوراپنی ذاتی تجربے کی بنیاد پر کئی سوالات اٹھائے۔

اس پوسٹ میں خاتون نے اپنے ساتھ پیش آنے والا ایک واقعہ بیان کیا، خاتون بتاتی ہیں کہ ’وہ اپنے دوستوں کے ساتھ سفر میں تھی۔ راستے میں کسی بیت الخلا کی عدم موجودگی کے باعث وہ ایک چھوٹی مسجد میں داخل ہوئی جہاں مرد اور خواتین مشترکہ طور پر بیت الخلا استعمال کررہے تھے‘۔

 خاتون کے بقول وہ مکمل کپڑوں میں ملبوس تھی لیکن اس نے دوپٹہ نہیں لیا ہوا تھا کیونکہ وہ مسلمان نہیں ہے اور اس کے لیے پردہ یا دوپٹہ مذہبی طور پر فرض نہیں۔

خاتون نے بتایا کہ مسجد میں ایک پٹھان مرد نے اسے بار بار غیر مناسب انداز میں گھورا۔ اس نے لکھا، “ٹھیک ہے، میں سمجھ گئی ہوں کہ میں دوپٹے کے بغیر ایک مقدس مقام پر موجود ہوں اور آپ نے نماز ادا کی ہے، لیکن آپ مجھے اس طرح کیوں گھور رہے ہیں جیسے میں کوئی گوشت کا ٹکڑا ہوں؟

اس پوسٹ کے ذریعے خاتون نے مردوں کے رویے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’اگر عورت پر پردہ فرض ہے تو کیا مردوں پر نگاہیں نیچی رکھنا، احترام کرنا اور عورتوں کی عزت کرنا لازم نہیں؟

 اس نے کہا کہ معاشرے میں خواتین کو ان کے لباس پرعوامی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جب کہ وہی مرد خواتین کو دیکھتے، تکتے اور گھورتے ہیں، مگر ان کے رویے پر کوئی بات نہیں کرتا۔

اس پوسٹ پر سوشل میڈیا صارفین نے ذاتی رائے پر مبنی تبصرے کیے، ایک صارف نے لکھا کہ ، بدقسمتی سے یہ ہمارا ملک ہے اور اوسط پاکستانی مردوں کی یہ احمقانہ ذہنیت ہے۔ کاش اس سے چھٹکارا پانے کا کوئی طریقہ ہوتا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے اور یہ افسوسناک ہے۔ وہ معاشرے اور ملک دونوں کے لیے بدنامی کا باعث ہیں۔

Hijab 1

ایک غیر ملکی سیاہ نے لکھا کہ میں آپ کے ملک سے محبت کرتا ہوں اور یقیناً دوبارہ دورہ کروں گا۔ میں سرمئی بالوں والی بڑی عمر کی عورت ہوں، میں نے دوپٹہ پہنا ہوا تھا اور اپنے شوہر کے ساتھ تھی جب ہم اسلام آباد کی مسجد میں گئے اور پھر بھی مرد رک گئے اور گھور رہے تھے۔ میرے خیال میں یہ صرف ایک جنوبی ایشیائی چیز ہے۔ میرا مجموعی تجربہ ناقابل یقین تھا، پاکستانی دل کی گہرائیوں سے عزت کرنے والے اور فیاض ہوتے ہیں لیکن ہاں یہ ایک واقعہ ایسا تھا۔

Hijab 2

پوسٹ میں مزید کہا گیا کہ عورت اگر بغیر دوپٹے کے ہو تو اسے بے حیائی کی علامت سمجھا جاتا ہے، جبکہ مردوں کی طرف سے مسلسل دیکھنا، تنگ کرنا یا نظریں نہ جھکانا شاید معاشرتی طور پر قابلِ قبول سمجھا جاتا ہے۔

 “مردوں کا پردہ کیوں زیر بحث نہیں آتا؟ صرف عورت کو ہی کیوں حیا، شرم، پردہ اور عزت کی علامت بنایا جاتا ہے؟ خاتون نے اپنی تحریر میں سوالات اٹھائے۔

ہمارے معاشرے میں عورت کو پردہ میں رہنے پر زور دیا جاتا ہے جبکہ مرد اس معاملے میں چھوٹ ہے اس حوالے سے مذہبی سکالر انیقہ فاطمہ نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کا تصورِ پردہ بظاہر صرف عورت کے لباس تک محدود سمجھا جاتا ہے، مگر قرآن کی ہدایت میں پہلی بار نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم مرد کو دیا گیا ہے (سورہ نور: 30)۔ اس کے بعد عورت کو بھی پردے، حجاب اور حیاء کی تلقین کی گئی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ پردہ ایک سماجی اخلاقی نظم ہے جو دونوں جنسوں پر یکساں لاگو ہوتا ہے۔

اسلام ہر ایک سے انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے اورکسی کوئی حق نہیں کہ کسی کی زندگے کو فیصلہ کرے، مذہبی سکالر انیقہ فاطمہ کا کہنا ہے کہ اسلام میں انفرادی انصاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کوئی بھی فرد، چاہے وہ باپ ہو یا بھائی، کسی عورت کی زندگی کا فیصلہ خود نہیں کر سکتا۔ زنا جیسے سنگین الزام کے لیے قرآن نے چار گواہوں کی شرط رکھی ہے (سورہ نور: 4)، اور اگر گواہی نہ ہو تو الزام لگانے والے کو سزا دی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل نہ صرف قرآنی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ اسلامی تاریخ اور سیرت میں بھی اس کا کوئی جواز نہیں ملتا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ “تم میں سے کوئی کسی دوسرے کے گناہوں کی سزا نہیں دے سکتا”۔ اس لیے ایسے اقدامات صرف جہالت، قبائلی روایت، اور قانون کی کمزوری کا نتیجہ ہیں، نہ کہ کسی مذہبی اصول کی بنیاد پر۔

Balochistan incident
تم میں سے کوئی کسی دوسرے کے گناہوں کی سزا نہیں دے سکتا۔ (فوٹو: فائل)

مذہبی سکالر انیقہ فاطمہ نے کہا کہ  غیرت کے نام پر قتل صرف مسلم معاشروں تک محدود نہیں، بعض ہندو، عیسائی اور دیگر روایتی معاشروں میں بھی ایسے جرائم ہوتے ہیں، مگر مسلم دنیا میں یہ اس لیے زیادہ نمایاں ہیں کیونکہ قانون پر عملدرآمد کمزور ہے،تعلیم کی کمی اور علماء کا کردار محدود ہو چکا ہے اور سماج نے عزت و غیرت جیسے جذباتی تصورات کو عورت کے جسم اور رویے سے جوڑ دیا ہے۔

لوگوں کا ماننا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل زیادہ طور پر پشتون اور بلوچ علاقوں میں زیادہ ہوتے ہیں اس حوالے سے علامہ حافظ محمد طلحہ مسرور نورینے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غیرت کے نام پر جرائم صرف مخصوص اقوام تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک وسیع تر معاشرتی مسئلہ ہے۔

پٹھان اور بلوچ برادریوں کا ذکر اس لیے زیادہ ہوتا ہے کیونکہ ان کے ہاں غیرت کا تصور زیادہ شدت سے وابستہ ہے۔ مگر یہ مسئلہ ہر اُس معاشرے میں موجود ہے، جہاں عورت کی آزادی کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

غیرت کے معاملے میں مرد کی نسبت عورت پر زیادہ پابندیاں لگائی جاتی ہیں، جس وجہ سے عورت کو غیرت کے نام پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔

علامہ حافظ محمد طلحہ مسرور نوری کا کہنا ہے کہ یہ عدم توازن صدیوں پر محیط پدرشاہی نظام کی پیداوار ہے، جس نے مرد کو فیصلہ ساز اور عورت کو تابع بنا دیا،عورت کی حرکات پر مذہب اور ثقافت کی آڑ میں سخت پابندیاں عائد کی جاتی ہیں، جو مرد پر لاگو نہیں ہوتیں اور اس توازن کو بہتر بنانے کے لیے تعلیم، قانون سازی اور مذہبی بیانیے کی اصلاح ناگزیر ہے۔

غیرت کے نام پر قتل کے کلچر کو ختم کرنے کے لیے علامہ حافظ محمد طلحہ مسرور نوری نےکہا کہ سب سے پہلے قانون کا سخت اور غیر مبہم نفاذ ضروری ہے تاکہ قاتل سزا سے نہ بچ سکیں،دوسرا قدم یہ ہے کہ سماجی سطح پر اس عمل کو”غیرت” کے بجائے “قتل” سمجھا جائے اورمیڈیا، علما اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ مسلسل آگاہی مہم کے ذریعے ذہن سازی کریں۔

احسان خان

احسان خان

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس