Follw Us on:

مصنوعی ذہانت ایک ماحولیاتی بحران کا پیش خیمہ

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Whatsapp image 2025 07 21 at 11.23.08 pm
ڈیٹا سنٹرز ایک ایسا انفراسٹرکچر ہے، جہاں ہزاروں کمپیوٹر سرورز نصب کیے جاتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

مصنوعی ذہانت بیسویں صدی کے اختتام اور اکیسویں صدی کی ابتدا سے ہی سائنسی ترقی کا اہم ستون بن چکی ہے۔ چاہے وہ چیٹ بوٹس ہوں، خودکار ترجمے، تصویری شناخت، خودکار گاڑیاں یا طبی تشخیص، ہر شعبے میں اے آئی اپنی جگہ مضبوطی سے بنا چکی ہے۔

مگراس ٹیکنالوجی کے پس پردہ ایک نہایت پیچیدہ اور ماحولیاتی لحاظ سے بوجھل نظام کام کر رہا ہے، جسے ڈیٹا سنٹرز کہا جاتا ہے۔ یہ ڈیٹا سنٹرز جہاں اے آئی ماڈلز کو ٹریننگ دی جاتی ہے اور انہیں چلایا جاتا ہے، وہیں یہ بجلی اور پانی کے وسیع استعمال کی وجہ سے ایک نیا ماحولیاتی بحران جنم دے رہے ہیں۔

واضح رہے کہ ڈیٹا سنٹرز ایک ایسا انفراسٹرکچر ہے، جہاں ہزاروں کمپیوٹر سرورز نصب کیے جاتے ہیں، جو ڈیٹا کو اسٹور کرنے، پراسیس کرنے اور منتقل کرنے کا کام کرتے ہیں۔ یہ سرورزاے آئی ماڈلز جیسے چیٹ جی پی ٹی، گوگل جیمنی، ایمازون الیگزا  اور دیگر کو چلانے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔

اے آئی ماڈلز کو ٹریننگ دینا نہایت توانائی طلب کام ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ایک بڑے اے آئی ماڈل کی تربیت کے دوران  ماڈل کو ٹریننگ دینے میں تقریباً 1,287 میگا واٹ گھنٹے بجلی استعمال ہوئی، جو ایک یورپی گھرانے کے تقریباً 120 سال کے برابر توانائی ہے۔

اسی طرح گوگل، مائیکروسافٹ اور دیگر کمپنیوں کے ڈیٹا سنٹرز مجموعی طور پر دنیا کی کل بجلی کا تقریباً 2فیصد سے زیادہ استعمال کر رہے ہیں اور یہ شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق 2022 تک دنیا بھر کے ڈیٹا سنٹرز نے تقریباً 240-340 ٹیراواٹ ہارزبجلی استعمال کی، جو کئی ممالک کی مجموعی بجلی کی کھپت کے برابر ہے۔

ڈیٹا سنٹرز کو مسلسل ٹھنڈا رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ جی پی یو اورسی پی یو مسلسل کام کے دوران بے حد گرم ہو جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے یا تو کولنگ ٹاورز استعمال کیے جاتے ہیں، جن میں پانی بخارات کی شکل میں خارج ہوتا ہے، یا براہ راست پانی کا بہاؤ استعمال کیا جاتا ہے۔

خیال رہے کہ مائیکروسافٹ نے تسلیم کیا کہ اس نے صرف جی پی ٹی-4  ماڈل کی ٹریننگ کے دوران تقریباً 700,000 گیلن (2.6 ملین لیٹر) پانی استعمال کیا۔

گوگل نے 2022 میں اپنے امریکا کے ڈیٹا سنٹرز میں 1.7 بلین گیلن (تقریباً 6.4 بلین لیٹر) پانی استعمال کیا، جو 10,000 گھریلو افراد کی سالانہ پانی کی ضرورت کے برابر ہے۔

بجلی کی پیداوار کا بڑا حصہ آج بھی کوئلے، گیس اور تیل جیسے غیر تجدید ذرائع سے حاصل کیا جا رہا ہے۔ یہ ذرائع کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسز کا اخراج کرتے ہیں، جو ماحولیاتی تبدیلی کو بڑھاوا دیتے ہیں۔

بہت سے ڈیٹا سنٹرز امریکا، یورپ، انڈیا اور دیگر ممالک کے ایسے علاقوں میں بنائے جا رہے ہیں، جہاں پہلے ہی پانی کی قلت ہے۔ ان سنٹرز کی وجہ سے مقامی باشندوں کو پانی کی فراہمی میں دشواری پیش آ سکتی ہے۔

ڈیٹا سنٹرز سے پیدا ہونے والی گرمی اگر مناسب طریقے سے خارج نہ کی جائے تو یہ مقامی درجہ حرارت میں اضافہ کر سکتی ہے، جسے ہیٹ آئی لینڈ ایفکٹ کہا جاتا ہے۔

سب سے زیادہ ڈیٹا سنٹرز امریکا میں ریاست آریزونا، ٹیکساس اور کیلیفورنیا میں موجود ہیں،  جہاں گرمی اور پانی کی قلت پہلے ہی ایک مسئلہ ہے۔

تیزی سے بڑھتے اے آئی استعمال کے باعث چین بھی ڈیٹا سنٹرز کی دوڑ میں آگے بڑھ رہا ہے، مگر اس کے اکثر مراکز کوئلے سے پیدا شدہ بجلی استعمال کرتے ہیں۔

اگرچہ پاکستان میں ابھی ڈیٹا سنٹرز کی تعداد کم ہے، مگر مستقبل میں اے آئی کی ضرورت کے تحت یہ تعداد بڑھ سکتی ہے، اس لیے ماحولیاتی پالیسی ابھی سے ضروری ہے۔

مستقبل میں کسی بڑے نقصان سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ڈیٹا سنٹرز کو سولر، ہوا اور ہائیڈرو پاور جیسی گرین انرجی پر منتقل کیا جائے۔ گوگل اور مائیکروسافٹ جیسے ادارے اس سمت میں کام کر رہے ہیں۔ گوگل کا دعویٰ ہے کہ وہ 2030 تک اپنے تمام ڈیٹا سنٹرز کو 24/7 کاربن فری انرجی سے چلانا چاہتا ہے۔

نئی ٹیکنالوجیز جیسےلیکوئڈ ایمرسن کولنگ یا ایئر بیسڈ کولنگ متعارف کروائی جا رہی ہیں، جو پانی کی کھپت کو کم کر سکتی ہیں۔ ایسے خطوں میں ڈیٹا سنٹرز قائم کیے جائیں، جہاں پانی وافر ہو اور درجہ حرارت کم ہو تاکہ کولنگ کی ضرورت بھی کم پڑے۔ حکومتوں کو چاہیے کہ ڈیٹا سنٹرز پر ماحولیاتی اثرات کی رپورٹنگ کو لازم قرار دیں اور ان پر پانی اور توانائی کی حد مقرر کریں۔

مصنوعی ذہانت جہاں ایک انقلاب لے کر آئی ہے، وہیں اس کے پیچھے چھپی ماحولیاتی قیمت بھی روز بروز سامنے آ رہی ہے۔ ڈیٹا سنٹرز کا بڑھتا ہوا توانائی اور پانی کا استعمال ہمیں ایک ایسے دور میں لے جا سکتا ہے، جہاں ٹیکنالوجی تو جدید ہوگی، لیکن فطرت نہایت کمزور ہوگی۔

اس لیے  ہمیں فوری طور پر اقدامات اٹھانے ہوں گے تاکہ ترقی کے اس سفر میں ہم زمین کو محفوظ رکھ سکیں۔ ٹیک کمپنیاں، ماہرین ماحولیات، حکومتیں اور عوام  سب کو مل کر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس