اسرائیلی فوج کی کارروائیوں میں غزہ کے مختلف علاقوں میں کم از کم 35 فلسطینی جاں بحق ہو گئے ہیں جن میں امداد کے منتظر آٹھ افراد بھی شامل ہیں۔
غزہ میں اسرائیلی محاصرے کے باعث خوراک کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔ اسی قلت کے باعث دو بچوں کی بھوک سے اموات کی تصدیق بھی ہوئی ہے۔
عالمی تنظیم آکسفیم کی نمائندہ فیونا اسمتھ نے لندن کے پارلیمنٹ اسکوائر میں مظاہرے کے دوران خبر رساں ایجنسی الجزیرہ کو بتایا کہ غزہ میں عام شہریوں پر مسلسل مظالم دیکھنے کے بعد ہم برطانوی حکومت کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اب بہت ہو چکا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سیاست دان بیانات دینے کے بجائے عملی اقدامات کریں تاکہ اس تشدد کو روکا جا سکے۔
اسمتھ نے بتایا کہ آکسفیم کے اپنے امدادی کارکن شدید بھوک کا شکار ہیں اور ان کی توانائی ختم ہو چکی ہے۔ مارچ سے اب تک غزہ میں کوئی امداد داخل نہیں ہو سکی رفح کراسنگ اور اردن میں سینکڑوں ٹرک امداد کے ساتھ موجود ہیں
مگر انہیں رسائی حاصل نہیں ہو رہی۔ یہ فاؤنڈیشن امداد نہیں بلکہ اموات کا سبب بن رہی ہے۔
خان یونس کے ناصر اسپتال میں موجود کینیڈین آرتھوپیڈک سرجن دیردر نونن کا کہنا تھا اس وقت میں اپنے ساتھیوں اور مریضوں میں شدید بھوک اور غذائی قلت دیکھ رہی ہوں
لوگوں کو اپنی روزمرہ ذمہ داریاں نبھانے میں دشواری ہو رہی ہے کیونکہ ان کے پاس توانائی ہی باقی نہیں ہے ۔
نونن نے یہ بھی بتایا کہ جب لوگ خوراک لینے جاتے ہیں تو ان پر فائرنگ ہوتی ہے جس کے نتیجے میں شدید زخمی افراد اسپتال پہنچتے ہیں کئی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا جسمانی اعضا سے محروم ہو جاتے ہیں۔

فضائی حملوں میں زخمی ہونے والے افراد کو شدید زخم اور جلنے کی حالت میں اسپتال لایا جاتا ہے اور ان کی جسمانی حالت ایسی نہیں ہوتی کہ وہ صحتیاب ہونے کے لیے ضروری پروٹین یا کیلوریز حاصل کر سکیں۔
عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے ادارے مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں کہ غزہ میں امداد کی فوری اور غیر مشروط فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ بھوک اور طبی سہولیات کی کمی سے ہونے والی اموات روکی جا سکیں۔
واضع رہے کہ ہلاکتیں ان حملوں کے بعد ہوئیں جب اسرائیلی ٹینکوں نے دیر البلح کے جنوبی اور مشرقی حصوں میں پہلی بار پیش قدمی کی۔ اس دوران انسانی بنیادوں پر امداد کے خواہش مند افراد کو نشانہ بنائے جانے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔