Follw Us on:

روپوشی سے ایوان بالا تک کا سفر، مفاہمت، جمہوریت کا حسن یا پھر سسٹم کی کمزوری؟

مادھو لعل
مادھو لعل

مراد سعید، ایک ایسا نام جو پچھلے کئی مہینوں سے خاموشی کی گرد میں لپٹا رہا، اچانک ایوان بالا میں نمودار ہوا تو جیسے سینیٹ کی فضا میں ایک دھماکہ سا ہو گیا۔ وہی مراد سعید، جس کے بارے میں کبھی یہ سوال اٹھایا جاتا رہا کہ وہ کہاں ہے، کہاں گیا، روپوش کیوں ہے، واپس آئے گا بھی یا نہیں۔ اور پھر اچانک، پارلیمنٹ کے ایوان میں حلف لیتے ہوئے، پر اعتماد چال، پرسکون چہرہ، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

یہ واقعہ صرف ایک رکنِ سینیٹ کی واپسی کا نہیں تھا، بلکہ یہ ایک سیاسی سوال کی شکل اختیار کر چکا ہے، کہ کیا یہ مفاہمت جمہوریت کا حسن ہے یا پھر نظام کی کمزوری؟ کیا ریاستی ادارے، حکومت، اپوزیشن، سب نے ایک نیا صفحہ کھولنے کا فیصلہ کر لیا ہے، یا پھر کوئی ایسی ڈیل ہوئی ہے جس کی تفصیلات اب بھی پردے میں ہیں۔

مراد سعید ان چہروں میں سے تھے جنہیں نہ صرف پارٹی کے اندر فعال اور جارحانہ ترجمان کے طور پر جانا جاتا تھا بلکہ وہ اپنی تقاریر، اپنی توانائی اور سڑکوں پر موجودگی کے لیے پہچانے جاتے تھے۔ جب 9 مئی کے بعد ملک بھر میں سیاسی دراڑیں گہری ہونے لگیں، درجنوں کارکن گرفتار ہوئے، کئی رہنما بیرون ملک چلے گئے یا خاموش ہو گئے، تب مراد سعید کی خاموشی ایک پہیلی بن گئی۔

ایک طرف ان کے خلاف مقدمات کا شور، گرفتاری کے خطرات، سوشل میڈیا پر ان کی تصاویر، بیانات، ویڈیوز غائب ہونے لگیں، دوسری طرف پارٹی کارکنوں کی زبان پر ایک ہی سوال ہوتا تھا، “مراد بھائی کہاں ہیں؟”
اور اب، اتنے مہینوں بعد، نہ کسی وضاحت کے، نہ کسی مقدمے کی سچائی کے، وہ واپس آئے اور اعلیٰ ترین جمہوری ایوان میں بیٹھ گئے، جیسے کسی نے اچانک اسکرپٹ بدل دیا ہو۔ نہ کوئی گرفتاری، نہ کوئی تفتیش، صرف حلف، تالیوں کی گونج اور ایک نئی سیاسی کہانی کا آغاز۔

اس موقع پر کئی تجزیہ کار حیران بھی ہیں اور فکرمند بھی۔ کچھ کہتے ہیں کہ یہ جمہوریت کی لچک ہے، کہ جب وقت آئے، دروازے کھل جاتے ہیں، راستے بن جاتے ہیں۔ مگر کچھ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ نظام کی کمزوری ہے، جہاں قانون ایک کے لیے سخت اور دوسرے کے لیے نرم ہو جاتا ہے۔
پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے سینیئر صحافی مسعود رانا کا کہنا تھا کہ اگر مراد سعید جیسے سرگرم سیاستدان کا اتنے طویل عرصے تک کوئی سراغ نہ ملے، اور پھر اچانک سینیٹ میں موجودگی ظاہر ہو، تو یہ سوال ضرور اٹھے گا کہ وہ کس کے ساتھ رابطے میں تھے، کیا مذاکرات ہوئے، کیا شرائط طے پائیں، اور یہ واپسی کس قیمت پر ہوئی۔

یہ بھی سوال پیدا ہوا ہے کہ کیا باقی رہنما بھی اسی راستے پر واپس آئیں گے، کیا یہ ایک نئے سیاسی معاہدے کی شروعات ہے، یا محض ایک شخص کا انفرادی فیصلہ؟ کیا ریاست نے پیغام دیا ہے کہ مفاہمت کے دروازے کھلے ہیں، یا یہ صرف چند خاص لوگوں کے لیے مخصوص ہے؟

مراد سعید کی واپسی، اس خاموشی سے جوش تک کا سفر، آج صرف ایک شخص کی کہانی نہیں رہی، بلکہ یہ ایک پورے نظام، ایک پورے بیانیے، اور ایک پوری سیاسی فضا کا امتحان ہے۔ اس کہانی میں اگر سیاست کی ہوشیاری ہے تو نظام کی بے بسی بھی چھپی ہے۔ اگر مفاہمت ہے تو بے اعتباری بھی، اور اگر جمہوریت کا حسن ہے تو اس کی کمزوریاں بھی سامنے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ باب کہاں جا کر ختم ہوتا ہے۔ کیا مراد سعید پھر سے پرانے انداز میں سیاست کریں گے، یا یہ ایک نئے کردار کی ابتدا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر، کیا یہ نظام واقعی اتنا طاقتور ہے کہ سب کو برابر کی نظر سے دیکھے، یا پھر طاقت کے ساتھ ساتھ ترجیحات بھی بدلتی رہتی ہیں۔

مادھو لعل

مادھو لعل

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس