حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 10 بچے ہلاک ہو گئے ہیں۔
ادارے کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اکتوبر 2023 کے حملوں کے بعد سے اب تک قحط کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کی کل تعداد 111 ہو گئی ہے۔
اسرائیلی بمباری کے بعد بڑھتی ہوئی بھوک اور پیاس کے بعد عالمی تنظیمیں بھی میدان میں آگئی ہیں۔
109 عالمی امدادی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں بڑے پیمانے پر بھوک پھیل رہی ہے۔
یورپی یونین نے اسرائیل کو متنبہ کیا ہے کہ اگر غزہ میں بھوک کی صورتحال مزید خراب ہوئی تو اس کے خلاف اقدام کیا جائے گا۔
اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی اسرائیلی کارروائیوں میں اب تک کم از کم 59 ہزار سے زائد افراد ہلاک اور ایک لاکھ 42 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔

اس کے مقابلے میں سات اکتوبر کے حملوں میں اسرائیل میں 1139 افراد جان بحق ہوئے ہیں اور200 سے زائد کو یرغمال بنایا گیا ۔
غزہ کی سول ڈیفنس کے ترجمان محمود بسال نے بھوک کے خلاف احتجاجاً بھوک ہڑتال شروع کر دی ہے۔ ان کی ہڑتال تیسرے دن میں داخل ہو چکی ہے اور دنیا کو اس حقیقت کا سامنا کرنا چاہیے کہ غزہ تنہا نہیں ہے۔
ان کے بقول میری ہڑتال کی وجہ یہ ہے کہ میں بچوں خواتین مریضوں اور بزرگوں کو دیکھ رہا ہوں جو کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں رکھتے۔
ہم روزانہ کی بنیاد پر تباہی دیکھ رہے ہیں لوگ زمین پر گر رہے ہیں بے ہوش ہو رہے ہیں تھکن بھوک اور قحط کے باعث ایک ہزار سے زائد افراد کھانے کی تلاش میں مارے جا چکے ہیں اور 85 بچے بھوک سے جاں بحق ہوئے ہیں۔

قطر میں قائم نشریاتی ادارے الجزیرہ نے بھی عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ میں صحافیوں کی حفاظت کے لیے فوری اور فیصلہ کن اقدام کرے۔
ادارے کے مطابق ان کے رپورٹرز اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر صورتحال کی کوریج کر رہے ہیں اور اب خود بھی قحط سے متاثر ہو رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے کے رپورٹر انس الشریف نے کہا کہ میں گزشتہ اکیس مہینے سے ایک لمحے کے لیے بھی کوریج سے نہیں رکا اور آج میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں بھوک میں ڈوبا ہوا ہوں تھکن سے کانپ رہا ہوں اور بے ہوشی سے لڑ رہا ہوں۔ غزہ مر رہا ہے اور ہم اس کے ساتھ مر رہے ہیں۔
الجزیرہ میڈیا نیٹ ورک کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر مصطفی سواق نے کہا کہ دنیا بھر کے صحافیوں اور اداروں پر ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کی حمایت میں آواز بلند کریں۔
اگر ہم نے اب کچھ نہ کیا تو تاریخ ہمیں اس ناکامی کے طور پر یاد رکھے گی کہ ہم نے اپنے ہی صحافیوں کی حفاظت نہ کی اور صحافت کے اصولوں سے منہ موڑ لیا۔