پاکستان میں مون سون کا موسم جیسے ہی آتا ہے، ایک عجیب سی بے یقینی کی فضا پورے ملک پر چھا جاتی ہے۔ کہیں بارش رحمت بن کر برستی ہے تو کہیں زحمت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
ہر سال جون، جولائی اور اگست کے مہینے جیسے ہی شروع ہوتے ہیں، ٹی وی سکرینوں، سوشل میڈیا اور خبروں میں “ریڈ الرٹ”، “سیلابی صورتحال”، “بارش کا خطرہ”، “محکمہ موسمیات کی وارننگ” جیسے الفاظ بار بار گونجنے لگتے ہیں۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ آخر کب تک پاکستان کے عوام ہر سال اس تباہی کا سامنا کرتے رہیں گے؟ کیا یہ سب صرف قدرت کا کھیل ہے یا ہم خود اس کے ذمہ دار ہیں؟
گزشتہ کچھ برسوں میں سیلاب پاکستان کے لیے ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔ 2022 کی شدید تباہی ابھی تک لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے، جب ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا تھا، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں، فصلیں برباد ہو گئیں اور معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ اس کے بعد بھی کئی علاقوں میں چھوٹے بڑے سیلاب آتے رہے اور ہر بار حکومتی اقدامات دیر سے شروع ہوئے اور ناکافی ثابت ہوئے۔
پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کلائنٹ ایکٹیوسٹ بشریٰ امان ورک کا کہنا ہے کہ ان تباہیوں کے پیچھے دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک تو دنیا بھر میں تیزی سے بڑھتی ہوئی موسمیاتی تبدیلی، جو برسات کے پیٹرن کو غیر متوقع اور خطرناک بنا رہی ہے اور دوسری انسانی غفلت، یعنی حکومتی نااہلی، ناقص انفراسٹرکچر، نالوں پر قبضے، جنگلات کی کٹائی اور پانی کے قدرتی راستوں کو بند کر دینا۔

پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے سماجی کارکن احمد الیاس کا کہنا ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں بارش کے بعد سڑکیں دریا کا منظر پیش کرتی ہیں۔ لاہور میں چند گھنٹے کی بارش کے بعد انڈرپاسز بھر جاتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں نہ کوئی ڈرینج سسٹم ہے نہ کوئی فوری ریلیف کا انتظام۔
انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا کے پہاڑی علاقوں میں گلیشیئر پگھلنے کا عمل تیز ہو چکا ہے جو سیلابی ریلوں کو جنم دیتا ہے۔ جنوبی پنجاب اور سندھ کے میدانی علاقے ہر سال پانی میں ڈوب جاتے ہیں اور وہاں کے کسان اپنی زمینیں چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
اس ساری صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر وہ غریب طبقہ ہوتا ہے، جس کے پاس نہ محفوظ گھر ہیں نہ زمینیں بچانے کی طاقت۔ وہ ہر سال اپنا سب کچھ کھو دیتا ہے اور اگلے سال پھر وہی کہانی دہراتا ہے۔ اور حکومت؟ وہ زیادہ تر اجلاسوں، رپورٹوں اور وعدوں تک محدود رہتی ہے۔
حال ہی میں اقوامِ متحدہ اور مختلف بین الاقوامی اداروں نے ایک بار پھر خبردار کیا ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے شدید متاثر ہونے والے چند بڑے ممالک میں شامل ہے۔ لیکن اس وارننگ کے باوجود ابھی تک کوئی جامع حکمتِ عملی سامنے نہیں آئی۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی صلاحیتیں محدود ہیں اور صوبائی حکومتیں اپنی سیاسی لڑائیوں میں مصروف رہتی ہیں۔

واضح رہے کہ اگر آج بھی ہم نہ جاگے، تو آنے والے برسوں میں یہ تباہی صرف سالانہ معمول نہیں بلکہ مستقل بحران بن جائے گی۔ وقت آ چکا ہے کہ پاکستان نہ صرف اپنی پالیسیوں کو ازسرنو ترتیب دے بلکہ موسمیاتی تبدیلی کو سنجیدگی سے لے کر جنگی بنیادوں پر کام کرے۔ دریا کے کناروں پر مضبوط بند، شہروں میں جدید ڈرینج سسٹم، ندی نالوں سے تجاوزات کا خاتمہ اور سب سے بڑھ کر عوامی آگاہی، یہ سب اب محض سفارشات نہیں بلکہ بقا کی ضمانت ہیں۔
اگر آج بھی ہم نے سیکھنے سے انکار کیا تو پھر ہر مون سون میں ہم یہی سوال دہراتے رہیں گے کہ آخر کب تک؟ کب تک ہم اپنی غفلت کا خمیازہ قدرتی آفت کی صورت میں بھگتتے رہیں گے؟