جنوبی لبنان کے خطے میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں 11 مزید افراد جاں بحق اور 83 زخمی ہو گئے ہیں، جن میں متعدد عام شہری بھی شامل ہیں۔
ان حملوں کی شدت نے نہ صرف لبنان میں ایک اور انسانی المیے کو جنم دیا بلکہ اس نے خطے کے سیاسی اور فوجی محاذ پر ایک نیا تنازعہ بھی کھڑا کر دیا ہے۔
لبنانی وزارت صحت کے مطابق ان حملوں میں سب سے زیادہ تباہی ایترون، بلاہ، حولا، مارکابہ اور کفار کیلا میں ہوئی۔
ان علاقوں میں تین تین افراد ہلاک اور درجنوں افراد زخمی ہو گئے۔
اسرائیلی فورسز نے ان علاقوں میں مسلسل گولہ باری کی ہے جس کے نتیجے میں کئی شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ایک لبنانی فوجی بھی ان حملوں میں ہلاک ہوا جو اس بات کی علامت تھا کہ اسرائیلی فورسز کے ساتھ تصادم اب محض سرحدوں تک محدود نہیں رہا، بلکہ یہ ایک نئی جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے۔
اس صورتحال میں ایک اور خطرناک پہلو جنوبی لبنان کے شہریوں کی اپنے گھروں کی طرف واپسی کا تھا۔
ہزاروں لبنانی شہری جنہیں جنگ کی وجہ سے اپنی جگہوں سے نقل مکانی کرنی پڑی تھی، اسرائیلی فوجی بندشوں کے باوجود اپنے گھروں کو واپس جانا چاہتے تھے۔
ان شہریوں میں خواتین، بچے، بزرگ اور نوجوان سبھی شامل تھے۔ ان میں سے ایک خاتون فاطمہ نے کہا کہ “ہمیں اپنے گھروں میں واپس جانا ہے، چاہے اس کے لیے ہمیں اپنی جانوں کا نذرانہ دینا پڑے۔”
اسرائیلی فورسز نے ان شہریوں کو روکنے کے لیے سخت طاقت کا استعمال کیا، اور مسلسل فائرنگ کی۔
اس دوران کئی لوگ اسرائیلی فوج کے ساتھ تصادم میں مارے گئے۔
ایک محمد نامی شخص نے کہا کہ “ہم یہاں صرف اپنے گھروں کو واپس جانے کے لیے آئے ہیں، ہم مسلح نہیں ہیں، ہم صرف اپنے علاقے کے لوگ ہیں۔”
ان کی یہ بات ایک بڑے سوال کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کیا اسرائیل جنوبی لبنان میں مستقل قبضہ قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟
اسی دوران اسرائیل نے غزہ کی شمالی حدود پر بھی اپنا کنٹرول مضبوط کیا جس کے نتیجے میں سینکڑوں فلسطینی باشندے واپس اپنے گھروں کی طرف جانے میں ناکام رہے۔
غزہ کی سویلین دفاعی ایجنسی نے کہا ہے کہ ہزاروں فلسطینی شمالی غزہ کی طرف جانے کے لیے ایک اہم راستے پر روک دیے گئے ہیں۔
ان افراد میں بوڑھے، بیمار، اور بے گھر لوگ شامل ہیں جو اپنے گھروں کی طرف واپس جانے کے لیے بے چین ہیں۔
غزہ کی صورت حال بھی مزید پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے جہاں ہزاروں فلسطینی ابھی تک اپنے گھروں کے ملبے میں دفن ہوئے ہیں۔
ان میں سے ایک بزرگ فلسطینی شہری جس کا نام جمیل یاسین ہے وہ کہتے ہیں کہ”میرا دل اپنے گھر میں واپس جانے کے لیے تڑپ رہا ہے۔
اس نے کہا میں جانتا ہوں کہ میرا گھر اب ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے مگر پھر بھی میں وہاں واپس جانا چاہتا ہوں جہاں میں نے اپنی زندگی کے بہترین دن گزارے تھے۔”
دوسری جانب اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون سائر نے حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے اسرائیل کو 2,000 پاؤنڈ بموں کی ایک بڑی کھیپ فراہم کرنے کی اجازت دی تھی۔
اس بموں کا استعمال جنوبی غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کیا گیا جس سے مزید تباہی ہوئی ہے۔
اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ دفاعی ضروریات ہیں لیکن اس اسلحے کا استعمال نہ صرف فلسطینیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتا ہے، بلکہ پورے خطے میں امن کے لیے ایک بڑی دھچکہ بھی ہے۔
ایک طرف اسرائیل اپنے جنگی عزائم کو بڑھا رہا ہے، تو دوسری طرف لبنان کے شہری اپنے گھروں کی طرف واپس جانے کے لیے اپنے خون کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ لاکھوں افراد اب بھی اس تنازعے کی قیمت ادا کر رہے ہیں اور ہ صورتحال اس بات کا اشارہ کرتی ہے کہ اس جنگ کا کوئی فوری خاتمہ نظر نہیں آتا۔
یونائیٹڈ نیشنز نے جنوبی لبنان میں شہریوں کی واپسی کو خطرے میں قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت حالات اس قدر سنگین ہیں کہ شہریوں کے لیے وہاں واپس جانا محفوظ نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر فوری طور پر حالات بہتر نہ ہوئے تو اس انسانی بحران کا مزید بگڑنا ممکن ہے۔
اس منظر نامے میں ایک سوال باقی رہ جاتا ہے کہ کیا عالمی برادری اس خونریزی کو روکنے میں کامیاب ہو سکے گی؟ یا جنوبی لبنان اور غزہ میں پھنسے لاکھوں بے گناہ لوگ ہمیشہ کے لیے اس ظلم کی قیمت چکاتے رہیں گے؟
یہ سب وہ سوالات ہیں جو اس وقت پورے مشرق وسطیٰ کے امن اور استحکام کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔