پاکستان کی معیشت کا وہ شعبہ جو کبھی ملک کے سب سے مضبوط ستون کے طور پر جانا جاتا تھا، آج اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب فیصل آباد کی گلیوں میں پاور لومز کی آوازیں قومی ترقی کی علامت سمجھی جاتی تھیں، جب کراچی کی بندرگاہیں کپاس سے بھرے کنٹینرز سے آباد تھیں اور دنیا پاکستانی کپڑے کو معیار کی ضمانت مانتی تھی۔ لیکن آج یہی صنعت، جو کبھی لاکھوں افراد کے لیے روزگار کا وسیلہ تھی، بے یقینی، بحران اور زوال کی تصویر بنی ہوئی ہے۔
عوامی حلقوں میں یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ آخر پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری زوال کا شکار کیوں ہوئی؟ کیا اس کے پیچھے کوئی سیاسی چال تھی یا حکومتی نااہلی؟ اور کیوں پاکستان ٹیکسٹائل انڈسٹری میں آگے نہیں بڑھ رہا؟ اس کی وجوہات کیا ہیں؟
پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق صدر لاہور چیمبر آف کامرس کاشف انور نے کہا کہ پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے زوال کی بڑی وجہ حکومتی ناکام پالیسیاں ہیں، روپے اور ڈالر کی قدر میں 300 روپے کا فرق ہے، جس کی وجہ سے صنعت کار زیادہ دیر منافع نہیں کما سکتے کیونکہ جو سامان باہر سے منگوایا جاتا ہے وہ کافی مہنگا ہوتا ہے۔
1947 میں جب پاکستان آزاد ہوا تو ملک کے پاس نہ انفراسٹرکچر تھا اور نہ ہی کوئی مضبوط صنعتی بنیاد تھی، لیکن قدرتی وسائل میں پاکستان کا سب سے بڑا تحفہ کپاس تھی، جس نے جلد ہی کپڑا سازی کی بنیاد رکھ دی۔
1950 اور 60 کی دہائیوں میں کراچی، لاہور، ملتان، سیالکوٹ اور خاص طور پر فیصل آباد میں ٹیکسٹائل فیکٹریاں قائم ہونا شروع ہوئیں۔ شروع میں یہ صنعت دھاگا کاتنے اور سادہ کپڑا بنانے تک محدود تھی، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مشینری میں جدت، ڈیزائننگ، رنگ سازی اور برآمدات میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔
فیصل آباد، جو اُس وقت جھنگ کی ایک تحصیل لائل پور کہلاتا تھا، پاکستان کا “مانچسٹر” بن گیا۔ پاور لومز نے روزگار کے مواقع پیدا کیے، شہروں کی طرف دیہاتوں سے لوگوں کی ہجرت شروع ہوئی اور یوں ٹیکسٹائل انڈسٹری پاکستان کی معاشی شہ رگ بن گئی۔
1970 اور 1980 کی دہائیاں اس صنعت کا سنہری دور تھیں۔ پاکستانی دھاگہ، گارمنٹس اور ہوم ٹیکسٹائل کی دنیا بھر میں مانگ بڑھنے لگی۔ حکومت نے بھی برآمدات بڑھانے کے لیے متعدد اقدامات کیے۔ پاکستان کی ایکسپورٹ کا سب سے بڑا حصہ ٹیکسٹائل سے وابستہ ہو گیا۔
کاشف انور کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان اپنی برآمدات کو بڑھانا چاہتا ہے اور صنعتی ترقی چاہتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اور مشینری کی جانب جانا چاہیے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پر تو مشینری ہی نہیں بنتی جوکہ باہر سے منگوانا پڑتی ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق 80 کی دہائی میں پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات عالمی مارکیٹ میں چھ فیصد تک پہنچ چکی تھیں۔ لیکن 90 کی دہائی میں سب کچھ بدل گیا۔ توانائی بحران، کرپشن، ناقص صنعتی پالیسیاں اور غیر یقینی کاروباری ماحول نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کی جڑیں ہلا دیں۔ کئی کارخانے بند ہو گئے، ہزاروں مزدور بیروزگار ہو گئے اور برآمدی آرڈرز کم ہونے لگے۔
پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ عالمی امور ایاز محمود نے پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے زوال کی وجہ بتائی کہ اگر اُس وقت پالیسیوں میں تسلسل، توانائی کی دستیابی اور صنعتی اصلاحات پر کام کیا جاتا تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ مزید یہ کہ چین، بنگلہ دیش اور ویتنام نے تیزی سے ترقی کی اور عالمی مارکیٹ میں پاکستان کا حصہ چھین لیا۔
2000 کی دہائی کے آغاز میں عالمی سطح پر آزاد تجارت اور جی ایس پی پلس جیسے معاہدوں نے وقتی ریلیف دیا۔ پاکستانی مصنوعات کو یورپی منڈیوں تک ڈیوٹی فری رسائی ملی۔ نیشات، گل احمد، انٹرلوپ اور چیناب گروپ جیسے اداروں نے جدید ٹیکنالوجی اور پائیدار طریقہ کار اپنایا۔ کچھ برانڈز نے عالمی سطح پر جگہ بھی بنائی۔ لیکن یہ کامیابی محض بڑے اداروں تک محدود رہی۔
چھوٹے اور درمیانے درجے کے کارخانے توانائی بحران، گیس کی قلت اور ریفنڈز کی تاخیر جیسے مسائل کی زد میں رہے۔ ان کے لیے جدت اپنانا یا عالمی معیار پر آنا مشکل ہوتا چلا گیا۔

2020 میں کرونا وائرس کی عالمی وبا نے جہاں دنیا بھر کی سپلائی چینز کو متاثر کیا، وہیں پاکستان کے لیے ایک موقع ثابت ہوا۔ کئی ممالک نے پاکستان کی طرف رجوع کیا۔ بیڈ شیٹس، میڈیکل گارمنٹس اور ہوم ٹیکسٹائل کی برآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا۔ پاکستانی صنعت کاروں کے لیے یہ موقع تھا کہ وہ اپنی ساکھ بحال کریں۔ لیکن یہ بہت جلدی ضائع کر دیا گیا۔
ٹیکسٹائل مل منیجر عبدالمنان نے پاکستان میٹرز کو بتایا کہ کورونا وبا میں پاکستانی صنعت کاروں کے موقع ضائع کرنے کی بڑی وجہ روپے کی قدر میں گراوٹ، سیاسی عدم استحکام اور معاشی بدانتظامی تھا۔ حکومت ضروریاتِ زندگی اور انرجی و پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مستحکم رکھنے میں ناکام ہوئی اور یوں درمیانی انڈسٹریاں ایک بار پھر زوال کا شکار ہوگئیں۔
2022 اور 2023 میں صورتحال مزید بگڑ گئی۔ سیاسی غیر یقینی، مہنگائی، بین الاقوامی گاہکوں کا اعتماد ختم ہونا اور توانائی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ، یہ سب عوامل ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے زہر قاتل ثابت ہوئے۔ کئی چھوٹے یونٹس بند ہو گئے، برآمدات میں کمی آئی اور ہزاروں مزدور دوبارہ بیروزگار ہو گئے۔
مزید پڑھیں: قحط، بمباری اور میڈیا پر پابندیاں: غزہ میں انسانی بحران شدت اختیار کر گیا
2025 میں بھی صنعت بجلی، گیس، پالیسی اور عالمی معیار کی دوڑ میں پیچھے ہے۔ خاص طور پر ماحولیاتی ضوابط، سرٹیفکیشنز اور مصنوعات کی ٹریس ایبلٹی وہ عوامل ہیں جن میں پاکستان اب بھی کمزور ہے۔
دوسری جانب حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان تمام مسائل کے باوجود آج بھی ٹیکسٹائل پاکستان کی سب سے بڑی ایکسپورٹ انڈسٹری ہے۔ برآمدات میں 55 فیصد سے زائد حصہ اسی کا ہے۔ یعنی اگر حکومت، صنعتکار اور برآمد کنندگان سنجیدگی سے اقدامات کریں تو یہ صنعت ایک بار پھر معیشت کو سہارا دے سکتی ہے۔
ماہرِعالمی امور کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کو صنعت کو اپنی طاقت بنانا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اس صنعت کے لیے طویل مدتی پالیسی فریم ورک دے، جو سیاسی تبدیلیوں سے متاثر نہ ہو۔ توانائی کی بلا تعطل فراہمی، خام مال کی دستیابی اور برآمدات کی آسانی اس کا حصہ ہوں۔

دھیان رہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان عالمی معیار کے مطابق جدید مشینری، آٹومیشن اور گرین پراسیسنگ کی طرف بڑھے۔ پانی کی بچت، توانائی کی کمی اور کاربن فری پیداوار پر سرمایہ کاری وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ فیشن ڈیزائن، ٹیکسٹائل انجینئرنگ اور ای کامرس کے شعبے میں نوجوانوں کی تربیت ضروری ہے۔ دنیا صرف کپڑا نہیں بلکہ برانڈ، اسٹوری اور کسٹمائزڈ سلوشنز خریدتی ہے۔ پاکستانی صنعت کار اگر ان نئے رجحانات کو اپنا لیں تو وہ بین الاقوامی مارکیٹ میں دوبارہ اپنی جگہ بنا سکتے ہیں۔
عبدالمنان کا کہنا تھا کہ آج بھی اگر آپ فیصل آباد کی کسی گلی میں جائیں تو پاور لومز کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ کراچی کی بندرگاہ پر کپاس سے بھرے کنٹینر ایک نئی امید کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ آج بھی دور دراز کے دیہاتوں میں مائیں اپنے بیٹوں کو اس انڈسٹری کا حصہ بننے کی نصیحتیں کرتی ہیں۔ یہی وہ خواب ہے جو کئی دہائیوں سے ٹیکسٹائل انڈسٹری زندہ رکھے ہوئے ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسحاق ڈار کی زیرصدارت سلامتی کونسل کا اجلاس: ’اقوام متحدہ اور او آئی سی کے درمیان تعاون وقت کی اہم ضرورت ہے۔‘
کیا پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری ایک بار پھر دنیا میں اپنے نام کو لوہا منوا پائے گی؟ کیا ایک بار پھر پاکستان ابھرتی معیشت بنے گا؟ اور کیا مستقبل میں حکومتی پالیسیاں درمیانے اور نچلے صنعت کاروں کے لیے کارآمد ثابت ہوں گی؟ ان تمام سوالات کے جوابات تو خیر وقت ہی بتائے گا۔
مگر ایک بات تو طے ہے کہ یہ صنعت صرف دھاگے کی نہیں پاکستان کے خوابوں کی کہانی ہے۔ اس کے عروج و زوال کی داستان میں حکومت، عوام اور صنعتکاروں سب کا حصہ ہے۔ اگر ہم سب مل کر کام کریں تو یہ صنعت دوبارہ اپنے سنہری دور میں داخل ہو سکتی ہے۔