فرانس نے اعلان کیا ہے کہ وہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا۔ فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے ایک خط کے ذریعے فلسطینی صدر محمود عباس کو اس فیصلے سے آگاہ کیا اور کہا کہ یہ اقدام مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کی امید کے تحت اٹھایا جا رہا ہے۔
میکرون نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں ایک منصفانہ اور دیرپا امن کے تاریخی عزم کے تحت، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ فرانس فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔
فرانس یورپ کی سب سے بڑی یہودی اور مسلم آبادی کا گھر ہے وہ یہ قدم اٹھانے والا پہلا بڑا مغربی ملک ہوگا، جس سے فلسطین کو تسلیم کرنے کی عالمی مہم کو مزید تقویت مل سکتی ہے۔ اب تک یہ مہم زیادہ تر چھوٹے ممالک کی جانب سے آگے بڑھائی گئی ہے جو عموماً اسرائیل پر تنقید کرتے رہے ہیں۔
اس فیصلے پر اسرائیل اور امریکا دونوں نے شدید ردعمل دیا۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا کہ یہ اقدام “دہشت گردی کا انعام” ہے اور اسرائیل کے خلاف ایک اور ایرانی اتحادی ریاست کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا، موجودہ حالات میں فلسطینی ریاست اسرائیل کے ساتھ امن کے لیے نہیں، بلکہ اسرائیل کو مٹانے کے لیے ایک پلیٹ فارم بنے گی۔
اسرائیلی وزیر دفاع یوآف گیلنٹ نے اسے “دہشت گردی کے سامنے ہتھیار ڈالنے” کے مترادف قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل ایسی فلسطینی ریاست کو وجود میں نہیں آنے دے گا جو اس کی سلامتی کے لیے خطرہ ہو۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی فیصلے کی سخت مخالفت کی اور کہا کہ یہ اقدام “حماس کے بیانیے کو تقویت دیتا ہے” اور امن کی کوششوں کو پیچھے دھکیلتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ 7 اکتوبر کے متاثرین کے لیے ایک “تھپڑ” ہے۔
فرانس کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلان کے بعد، جرمنی جو فرانس کا اتحادی ہے نے کہا ہے کہ اس کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے، کیونکہ وہ اسرائیل کے تحفظ کو اہمیت دیتا ہے۔
جرمن حکومت کے ترجمان نے کہا کہ اسرائیل کی سلامتی جرمن حکومت کے لیے اولین ترجیح رکھتی ہے،لہٰذا جرمن حکومت کی قلیل المدتی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔
اٹلی کے وزیر خارجہ انتونیو تاجانی نے کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا اُس وقت ممکن ہے جب نئی ریاست اسرائیل کو بھی تسلیم کرے۔
ادھر کینیڈا نے بھی اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ امن کی راہ اختیار کرے۔ کینیڈین وزیراعظم مارک کارنی نے غزہ میں انسانی بحران کو روکنے میں اسرائیل کی ناکامی پر تنقید کی اور دو ریاستی حل کی حمایت کا اعادہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: قحط، بمباری اور میڈیا پر پابندیاں: غزہ میں انسانی بحران شدت اختیار کر گیا
کارنی نے یہ بھی الزام لگایا کہ اسرائیل نے جنگ زدہ علاقے میں کینیڈین امداد کو روک کر عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ انہوں نے تمام فریقوں سے فوری جنگ بندی کی اپیل کی اور حماس سے تمام یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
جون میں امریکا نے ایک سفارتی پیغام میں خبردار کیا تھا کہ فلسطینی ریاست کو یکطرفہ طور پر تسلیم کرنا امریکی خارجہ پالیسی کے مفادات کے خلاف ہو سکتا ہے اور اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ اب تک یورپی یونین کے 27 میں سے 11 ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں۔ سویڈن اس فہرست میں پہلا مغربی یورپی ملک تھا جس نے 2014 میں باضابطہ طور پر فلسطین کو تسلیم کیا۔
اس کے بعد بلغاریہ، قبرص، چیکیا، ہنگری، پولینڈ، رومانیہ، اور سلوواکیہ نے بھی یہ قدم اٹھایا۔ مئی اور جون 2024 میں اسپین، آئرلینڈ، ناروے، آرمینیا، اور سلووینیا نے فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کیا، جبکہ آئس لینڈ نے یہ فیصلہ 2011 میں کیا تھا۔