فرانس کی اعلیٰ ترین عدالت آج یہ فیصلہ سنائے گی کہ آیا وہ بشار الاسد کو ریاستی استثنا سے محروم کر سکتی ہے یا نہیں۔
یہ فیصلہ شامی شہریوں اور یورپی تفتیش کاروں کی جانب سے پیش کردہ شواہد کی شدت اور نوعیت کی بنیاد پر کیا جائے گا۔
اگر ’کورٹ ڈی کساشن‘ ریاستی استثنا ختم کر دیتی ہے تو 2013 میں غوطہ اور 2018 میں دوما میں کیمیائی حملوں کے الزامات پر بشار الاسد کے خلاف ان کی غیر موجودگی میں مقدمہ چلایا جا سکے گا۔

مازن درویش جو کہ شامی سینٹر فار میڈیا اینڈ فریڈم آف ایکسپریشن کے صدر ہیں اور جن کی تنظیم نے جنگی جرائم کے شواہد اکٹھے کیے ہیں نے کہا کہ یہ فیصلہ متاثرین کے لیے بڑی کامیابی ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ صرف شام کے متاثرین کے لیے نہیں بلکہ دنیا کے دیگر متاثرین کے لیے بھی قانونی دروازے کھول دے گا۔ ان کے مطابق یہ پہلی بار ہو گا کہ کسی ملک کا مقامی جج کسی صدر کے خلاف اس کے دورِ اقتدار میں گرفتاری کا حکم جاری کرنے کا اختیار رکھے گا۔
عدالت کے اس فیصلے سے سابق گورنر اور وزیر معیشت عدیب جیسے دیگر سرکاری عہدیداروں کے خلاف بھی کارروائی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ عدیب کے وکلاء نے یہ مؤقف اختیار کر رکھا ہے کہ انہیں عالمی قانون کے تحت استثنا حاصل ہے۔

بشار الاسد نے کیمیائی حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے اور ان الزامات کے لیے کوئی وکیل مقرر نہیں کیا۔ تاہم شامی اپوزیشن ان کی تردید کو مسترد کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ اسد حکومت ہی وہ واحد فریق تھی جس کے پاس سیرین جیسا مہلک کیمیکل موجود تھا۔
واضع رہے کہ شام میں 2011 میں عرب بہار کے دوران احتجاجی تحریک شروع ہوئی جس نے خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لی۔
اس جنگ میں پانچ لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے جبکہ لاکھوں افراد نے لبنان اردن ترکی اور یورپ کی جانب ہجرت کی۔
فرانس کی عدالت کے ممکنہ فیصلے کو انسانی حقوق کے کارکن عالمی سطح پر ایک اہم قانونی نظیر کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
اگر عدالت نے ریاستی استثنا ختم کر دیا تو یہ عالمی فوجداری عدالت کے بعد ایک اور راستہ ہو گا جس کے تحت بشار الاسد جیسے سابق یا موجودہ حکمرانوں کو ان کے مبینہ جرائم پر انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے گا۔
فی الحال شام کی حکومت یا روس جیسے اتحادی ممالک کی جانب سے اس قانونی پیشرفت پر کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔