غزہ میں قحط اور بھوک نے مزید نو افراد کی جان لے لی اور قحط کے باعث شہید ہونے والوں کی مجموعی تعداد 122 ہوگئی۔
محکمہ صحت غزہ کے مطابق اسپتالوں نے گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران قحط اور غذائی قلت کی وجہ سے نو نئی شہادتیں درج کی ہیں، جس کے بعد قحط کے باعث شہید ہونے والوں کی مجموعی تعداد 122 تک پہنچ گئی ہے۔
یونیسف اور دیگر امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ شدید غذائی قلت کا شکار بچوں کی جانیں بچانے کے لیے ضروری خصوصی غذا اگست کے وسط تک ختم ہو جائے گی، جس سے انسانی بحران مزید سنگین ہو جائے گا۔
اسرائیلی فوج، جو مارچ سے غزہ پٹی پر تقریباً مکمل ناکہ بندی کر رہی ہے، نے ایک بار پھر اقوام متحدہ اور بین الاقوامی امدادی اداروں کو انسانی صورتحال کے ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی ہے۔

اسرائیلی فوج کی سرکاری تنظیم کوآرڈینیٹر آف گورنمنٹ ایکٹیویٹیز ان دی ٹیریٹوریزنے بیان میں کہا ہے کہ سینکڑوں ٹرک جن میں انسانی امداد ہے، کرم ابو سالم بارڈر کراسنگ (جسے اسرائیل میں کیرِم شالوم کہا جاتا ہے) پر مصر کی سرحد کے قریب جنوب غزہ میں موجود ہیں۔
فوجی یونٹ نے کہا ہے کہ یہ امدادی سامان “سلامتی معائنوں کے بعد” بین الاقوامی تنظیموں کے حوالے کیے جانے کا انتظار کر رہا ہے۔
دوسری جانب اسرائیل اور امریکا اقوام متحدہ اور دیگر امدادی تنظیموں کو غزہ کے امدادی نظام سے نکال کر غزہ ہیومنٹیریئن فاؤنڈیشن کے ذریعے امداد پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق تقریباً 1000 فلسطینی اسرائیلی فورسز کی فائرنگ میں شہید ہو چکے ہیں، جب وہ جی ایچ ایف کے مراکز سے خوراک حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔