Follw Us on:

فلسطینیوں کا حامی لیڈر40 سال بعد فرانسیسی جیل سے رہا، یہ جارج ابراہیم عبداللہ کون ہیں؟

احسان خان
احسان خان
Jourge abdullah
فلسطینیوں کا حامی لیڈر40 سال بعد فرانسیسی جیل سے رہا( فائل فوٹو)

فلسطینی حامی اور لبنان کی انقلابی شخصیت جارج ابراہیم عبداللہ بالآخر 40 سال سے زائد قید کاٹنے کے بعد فرانس کی جیل سے رہائی پا کر لبنان واپس پہنچ گئے،جارج عبداللہ کو فرانسیسی پولیس نے سفارت کاروں کے قتل کے الزام میں 1984 میں گرفتار کیا تھا۔

جارج ابراہیم عبداللہ کا تعلق لبنان کے شمالی شہر القبیات سے ہے اور وہ مارونائی عیسائی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ نوجوانی میں وہ مارکسسٹ نظریات سے متاثر ہوئے اور فلسطینی عوام کے حق میں عسکری جدوجہد کو اپنایا۔ لبنان میں جاری خانہ جنگی، فلسطینی پناہ گزینوں کے کیمپوں پر اسرائیلی حملے اور 1982 کے صبرا و شتیلا قتلِ عام جیسے واقعات نے عبداللہ کو عملی مزاحمت کی طرف مائل کیا۔

انہوں نے 1979 میں لبنانی مسلح انقلابی دھڑوں‘ (Lebanese Armed Revolutionary Factions – LARF) کے نام سے ایک تنظیم قائم کی، جس کا مقصد فلسطینی مزاحمت کی حمایت اور اسرائیل و مغربی دنیا کے خلاف جدوجہد کرنا تھا۔

امریکی فوجی اتاشی چارلس رابرٹ رے  اور اسرائیلی سفارتکار یعقوب بارسیمنٹوف  کے قتل کے الزام میں فرانسیسی پولیس نے 1984 میں جارج عبداللہ کو گرفتار کیا۔ وہ خود کو اسرائیلی خفیہ ایجنسی ’موساد‘ کے نشانے پر سمجھتے تھے اور اسی خوف کے تحت پولیس اسٹیشن پہنچ کر خود کو حوالے کیا۔ ابتدائی طور پر ان پر جعلی پاسپورٹ رکھنے اور مجرمانہ سازش کے الزامات لگائے گئے، لیکن بعد ازاں ان کے اپارٹمنٹ سے اسلحہ کا ذخیرہ اور ٹرانسمیٹر برآمد کیا گیا۔

تاہم جارج عبداللہ نے خود پر لگے قتل کے الزامات کی تردید کی، مگر انہیں 1987 میں عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔

Jorge abdullah
جارج عبداللہ نے خود پر لگے قتل کے الزامات کی تردید کی، مگر انہیں 1987 میں عمر قید کی سزا سنا دی گئی( فائل فوٹو)

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ فرانس میں عمر قید پانے والے بیشتر قیدی 30 سال سے کم مدت میں رہا کر دیے جاتے ہیں، مگر عبداللہ کی رہائی کو 25 سال تک سیاسی مداخلت کی وجہ سے مؤخر کیا گیا، کیوں کہ جب بھی ان کی رہائی کا فیصلہ کیا گیا، امریکا اور اسرائیل کی جانب سے شدید مخالفت کی گئی۔ ان کی 11 سے زائد درخواستیں مسترد کی گئیں۔

2013 میں فرانسیسی عدالت نے ایک موقع پر ان کی رہائی کی منظوری دے دی تھی، لیکن اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے فرانسیسی حکومت کو خط لکھ کر عدالت کے فیصلے کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے کی سفارش کی۔
یہ خط بعد میں وکی لیکس کے ذریعے عوام کے سامنے آیا۔ فرانسیسی وزیر داخلہ مانوئل والس نے بعد ازاں ان کی رہائی کے لیے درکار اخراجی حکم نامے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔

17 جولائی 2025 کو فرانس کی ایک عدالت نے اس شرط پر رہائی کا حکم دیا کہ عبداللہ فرانس چھوڑ کر واپس لبنان چلے جائیں۔ فرانس میں قید کے دوران، متعدد بار ان کی رہائی کی کوشش کی گئی، لیکن امریکا اور اسرائیل کی مسلسل سفارتی مداخلت ان کی راہ میں رکاوٹ بنی رہی۔

فرانسیسی رکنِ پارلیمنٹ آندرے تورینیا، جو ایک سخت گیر بائیں بازو کی سیاستدان ہیں، نے رہائی کے دن عبداللہ سے جیل میں ملاقات کی اور ان کے ساتھ ایک یادگار سیلفی بھی لی۔

جارج عبداللہ کے وکیل ژاں لوئی شالانسے نے کہا کہ یہ ایک قانونی فتح ضرور ہے، لیکن یہ فرانس کی ریاستی ناانصافی اور امریکی دباؤ کے تحت انصاف کی پامالی کا بھی ایک ثبوت ہے۔

Jordge

نوبیل انعام یافتہ ادیبہ انی ارنو نے بھی ان کی رہائی کے لیے آواز بلند کی اور انہیں ’ریاستی ظلم کا نشانہ‘ قرار دیا۔

فرانسیسی انٹیلیجنس کے سابق سربراہ ایو بونے نے تو یہاں تک کہا کہ جارج عبداللہ کے ساتھ اس سے بھی بدتر سلوک ہوا جو کسی قاتلِ مسلسل کے ساتھ نہیں ہوتا۔ امریکا ان کی رہائی کو روکنے میں جنونی حد تک شامل رہا۔

لبنان میں عبداللہ کی واپسی کو ان کے حامیوں نے ایک تاریخی فتح قرار دیا ہے۔ بیروت ایئرپورٹ پر حزب اللہ کے حامی حلقوں، بائیں بازو کے کارکنوں اور فلسطینی تنظیموں کے نمائندوں نے ان کا استقبال کیا۔ تاہم مغرب میں ان کی رہائی پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ایلون مسک نے یوکرین میں سٹارلنک کی سروس بند کر دی، جنگی کاروائی متاثر

جارج عبداللہ کا کہنا ہے کہ ان کی سیاسی سوچ اب بھی غیر متزلزل ہے، انہوں نے کہا کہ فلسطین آج بھی عرب دنیا میں انقلاب کا محرک ہے،جب تک فلسطینیوں پر ظلم جاری رہے گا، جدوجہد کا راستہ ختم نہیں ہوگا۔

مزید پڑھیں:غزہ میں بھوک اور قحط سے مزید نو افراد شہید، مجموعی تعداد 122 ہوگئی

انہوں نے غزہ پر اسرائیلی حملوں، مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر آبادکاروں کے تشدد اور عالمی برادری کی خاموشی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ عبداللہ نے مغربی ممالک میں ہونے والے جنگ بندی کے حق میں مظاہروں کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ مظاہرے ثابت کرتے ہیں کہ دنیا میں ضمیر ابھی مکمل طور پر مردہ’ نہیں ہوا۔

Author

احسان خان

احسان خان

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس