سابق انڈین وزیر داخلہ پی چدم برم نے پہلگام واقعے پر مودی سرکار کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہا ہے کہ پہلگام حملے میں ملکی سطح کے دہشت گرد بھی ملوث ہو سکتے ہیں، حکومت کے پاس کیا ثبوت ہے کہ حملہ آور پاکستان سے آئے تھے؟
انڈین میڈیا کے مطابق پارلیمنٹ میں آپریشن سندور پر بحث سے قبل کانگریس کے سینئر رہنما اور سابق وزیر داخلہ پی چدم برم کے ایک انٹرویو میں دیے گئے بیان نے سیاسی ہلچل مچا دی ہے۔
پی چدم برم نے ’دی کوئنٹ‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ پہلگام حملے میں ملکی سطح کے دہشت گرد بھی ملوث ہو سکتے ہیں، انہوں نے سوال اٹھایا کہ حکومت کے پاس کیا ثبوت ہے کہ حملہ آور پاکستان سے آئے تھے؟
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’کیا نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے حملہ آوروں کی شناخت کی؟ وہ کہاں سے آئے؟ ہو سکتا ہے وہ ملک کے اندر سے ہوں، یہ کیوں مان لیا گیا ہے کہ وہ پاکستان سے آئے؟ اس کا کوئی ثبوت تو موجود نہیں‘۔
انہوں نے حکومت پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ آپریشن سندور کے دوران ہونے والے نقصانات کو چھپا رہی ہے۔
چدم برم نے کہا کہ ’جنگ میں دونوں طرف نقصانات ہوتے ہیں، اگر انڈیا کو نقصان پہنچا ہے تو اسے تسلیم کریں، چرچل نے بھی دوسری جنگ عظیم میں مسلسل عوام کو صورتِ حال سے آگاہ رکھا‘۔
چدمبرم نے سوال اٹھایا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے اس اہم معاملے پر پارلیمنٹ میں براہ راست بات کیوں نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ ’وزیراعظم جلسوں میں خطاب کرتے ہیں، مگر پارلیمنٹ جیسے جمہوری ادارے میں خاموش ہیں، آخر حکومت جنگ بندی کے عمل پر بات کرنے سے کیوں گھبرا رہی ہے؟ کیونکہ سچ یہ ہے کہ جنگ بندی کا اعلان انڈیا نے نہیں بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا تھا‘۔
بی جے پی نے چدم برم کے بیان کو پاکستان کو کلین چٹ دینے کے مترادف قرار دیتے ہوئے سخت تنقید کی ہے۔
واضح رہے کہ رواں سال 22 اپریل کو انڈیا کے زیر قبضہ کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے پہلگام میں مبینہ حملے میں 26 سیاحوں کی مبینہ ہلاکت کے بعد اگلے ہی روز مودی سرکار نے سندھ طاس معاہدہ فوری طور پر معطل کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق انڈین حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ اس حملے کا واضح اور بھرپور جواب دیا جائے گا۔
انڈیا نے پہلگام فالس فلیگ آپریشن کو جواز بناتے ہوئے پاکستانی شہریوں کو 48 گھنٹے میں بھارت چھوڑنے کا حکم دیا تھا جبکہ واہگہ بارڈرکی بندش اور اسلام باد میں بھارتی ہائی کمیشن میں تعینات اپنے ملٹری اتاشی کو وطن واپس بلانے کے علاوہ پاکستان میں تعینات سفارتی عملے کی تعداد میں بھی کمی کردی تھی۔
پاکستان نے بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے انڈین سفارتی عملے کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا جبکہ سکھ یاتریوں کے علاوہ تمام انڈین کے ویزے منسوخ کردیے تھے جبکہ بھارتی پروازوں کے لیے فضائی حدود بند کردی تھی جو تاحال بند ہے۔
بعدازاں انڈیا نے 7 مئی اور 10 مئی کی رات کو پاکستان کی شہری عسکری تنصیبات پر بلاجواز حملے کرکے خواتین اور بچوں سمیت متعدد پاکستانیوں کو شہید کیا تھا۔
پاک فضائیہ نے 7 مئی کی انڈین جارحیت کا فوری منہ توڑ جواب دیا تھا اور 4 جدید رافیل طیاروں سمیت 6 انڈین طیارے مارے گرائے تھے۔
10 مئی کو انڈیا کے میزائل حملوں کے جواب میں پاکستان نے آپریشن بنیان مرصوص کا آغاز کرتے ہوئے انڈیا کی متعدد ایئربیسز، فوجی تنصیبات اور پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے والے اڈوں کو نشانہ بنایا اور بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا تھا۔ْ