Follw Us on:

ظالموں کی سرپرستی کرنے والا ٹرمپ اچانک غزہ کی حمایت کیوں کرنے لگا؟

مادھو لعل
مادھو لعل
Trump on gaza
یو ایس غزہ کو لے لے گا، اسے دوبارہ تعمیر کرے گا۔ (فوٹو: فائل)

ہر برے اور ناجائز عمل میں اسرائیل کے حمایت کرنے اور فلسطین کو نظرانداز کرنے والے امریکا اور برطانیہ غزہ کے حمایتی بننے لگ گئے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہمراہ اسکاٹ لینڈ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے برطانوی وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ غزہ میں بھوک کے شکار بچوں کی تصاویر ناقابلِ بیان ہیں  اور ہم اسرائیل سے بات چیت کرکے جنگ بندی کی کوشش کررہے ہیں۔

اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران پر حملہ کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ  خود کو امن کا حامی قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ میں نے چھ جنگوں کو رکوایا ہے، غزہ میں ہرطرف بھوک ہے اور ہم خوراک پہنچانا چاہتے ہیں۔ ہم غزہ میں فوڈ سینٹرز قائم کریں گے، ہم نے غزہ میں خوراک کی فراہمی کے لیے 60 ملین ڈالرز فراہم کیے ہیں۔

امریکی صدر و برطانوی وزیرِاعظم کے اس بیان نے سیاسی حلقوں میں بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ ٹرمپ جس نے فروری 2025 میں غزہ پر امریکی قبضہ کا خیال پیش کیا تھا، اب اچانک غزہ کی انسانی امداد کی حمایت کیوں کر کرنے لگا ہے؟

واضح رہے کہ فروری کے شروع میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ یو ایس غزہ کو لے لے گا، اسے دوبارہ تعمیر کرے گا اور اسے ’ریویےرا آف دی مڈل ایسٹ‘ بنائے گا۔ غزہ کی پوری آبادی (تقریباً 2.2 ملین) کو دوسرے ممالک میں منتقل کرنے کا منصوبہ، اردن اور مصر کو قبول کرنا ہوگا، جیسے ٹرمپ نے لاحق کیا تھا کہ اگر ان نے نہ مانا تو امداد روک دی جائے گی، مگر عرب دنیا بشمول مصر اور اردن، نے اس منصوبے کی شدت کے باعث سخت ردِ عمل کا اظہار کیا اور اسے عالمی قانون کی خلاف ورزی بھی قرار دیا تھا۔

مئی اور جون میں کچھ ممالک نے ٹرمپ کی اس تجویز سے دستبردار ہونے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب کوئی فلسطینی منتقل نہیں کیا جائے گا،یہ تبدیلی عرب اور بین الاقوامی دباؤ کے نتیجے میں سامنے آئی۔

مگر گزشتہ روز ٹرمپ نے اعلان کیا کہ امریکا غزہ میں کھانے کے مراکز کھولے گا تاکہ شدید غذائی بحران کا مقابلہ کیا جائے۔ اس سے قبل انہوں نے اسرائیل پر عدم امداد اور ناکافی انسان دوستی کا الزام بھی لگایا تھا۔

ٹرمپ نے نیتن یاہو کے مؤقف سے اختلاف کیا اور کھانا پہنچانے پر زور دیا۔ انہوں نے مغربی ممالک سے امدادی شراکت پر زور دیا، امداد میں شفافیت کی بات کی اور اسرائیل سے کہا کہ بلاکڈ راستے کھولے جائیں۔

Donald trump ii
میں نے چھ جنگوں کو رکوایا ہے۔ (فوٹو: پی ٹی وی)

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ عالمی امور پروفیسر محمد ضیاءالرحمان کہتے ہیں کہ ٹرمپ اور یورپی ممالک کی اس بدلتے رویے کی بڑی وجہ غزہ میں گزشتہ کچھ دنوں میں بھوک سے ہونے والی معصوم بچوں کی شہادتیں ہوسکتی ہیں، جنہوں نے ٹرمپ پر دباؤ پیدا کیا ہے کہ وہ انسانی تصادم کا ذکر کرے

مصر، اردن، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر نے ٹرمپ کی ابتدائی تجویز کی شدید مخالفت کی۔ ایک اجلاس میں 57 ارکان نے عرب تجدیدی منصوبہ پیش کیا، جو فلسطینی قیادت کے تحت غزہ کو دوبارہ تعمیر کرے۔

ماہرِ عالمی امور کہتے ہیں کہ ٹرمپ شدت پسند پالیسیوں کے لیے مشہور تھے، مگر عالمی سطح پر انسانی حقوق کی حمایت کرنے والی اقوام نے کھل کر ردِ عمل ظاہر کیا، جس نے ان کی پالیسی میں تبدیلی لانے پر مجبور کیا۔

ترکی اور قطر جیسے ممالک نے مسئلے کو انسانی ہمدردی اور طویل المدتی امن کوشش سے جوڑا، حتیٰ کہ فرانسیسی صدر میکرون و برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمرنے فلسطینی ریاست کے اعتراف کا مطالبہ کیا۔ ٹرمپ نے فلسطینی ریاست مؤقف اختیار نہ تو کیا مگر امدادی پہلو پر زور دیا۔

پروفیسر ضیاء الرحمان نے کہا کہ گزشتہ روز ٹرمپ نے دنیا کو حیران کرتے ہوئے اعلان کیا کہ امریکا غزہ میں کھانے کے مراکز کھول رہا ہے ، اس کی ممکنہ وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ٹرمپ خود کو امن کا گہوارہ کہتے ہیں اور وہ بارہا وجہ عالمی امن پرائز کا بھی کہہ چکے ہیں۔ اس لیے ممکن ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کروا کر ایک بار پھر امن پرائز کا مطالبہ کریں۔

یاد رہے کہ یہ وہی ٹرمپ ہیں، جنہوں نے پہلے اعلان کیا کہ غزہ کو امریکا ریویےرا آف مڈل ایسٹ بنانے کے لیے لے لیا جائے اور اس کے مکینوں کو دوسرے ملکوں میں منتقل کر دیا جائے۔ مگر چند مہینوں بعد عرب ممالک نے اسرائیل اور امریکا کو کہا کہ اس طرح کا منصوبہ ناقابل قبول ہے، پاکستان اور مصر نے کہا کہ نقصان دہ ہے،اور عالمی صحافیوں نے ان تصویروں کو دکھا کر نروقریب مظاہرے کیے، جس کے بعد ٹرمپ نے اپنا نرم لہجہ اپنایا۔

Live israel’s starvation
غزہ کو امریکا ریویےرا آف مڈل ایسٹ بنانے کے لیے لے لیا جائے۔ (فوٹو: نیو عرب)

قاہرہ میں فلسطینی علمائے کرام اور ماہرین انسانی حقوق نے مشترکہ بیان جاری کیا کہ ‘غزہ کے مکینوں کو ان کی زمین سے محروم کرنا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔’ اس کے چند دن بعد، ٹرمپ نے اجلاس میں اسرائیل پر بھی زور دیا کہ امدادی راستے کھولے جائیں اور انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ‘غذائی قحط ایک حقیقی مسئلہ ہے، ہم اسے نظر انداز نہیں کر سکتے۔

یہ تبدیلی دراصل سخت بین الاقوامی دباؤ اور انسانی المیے کی واضح ترجمانی کا نتیجہ ہے۔ وہ ٹرمپ جس نے پہلے فلسطینیوں کی ملک بدری کی تجویز دی، اب انسانی بنیادوں پر خود کو پیچھے ہٹا کر امداد کا وکیل بن گیا ہے۔ اگرچہ وہ اب بھی فلسطینی ریاست کی حامی نہیں، مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غزہ میں قحط زدگان کی بقا اور بچوں کی غذا اس کی ترجیح بن گئی ہے۔

ٹرمپ  اور عالمی ممالک کے اس بدلتے رویے کے اصل مقاصد تو وقت ہی بتائے گا کہ کیا تھے، مگر ایک چیز تو ظاہر ہوچکی ہے کہ ٹرمپ سیزفائر کے حوالے سے اقدامات کی کوشش کررہا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جلد ہی اسرائیل اور حماس کے مابین سیزفائر معاہدہ ہوجائے گا۔

مادھو لعل

مادھو لعل

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس