اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مشرق وسطیٰ اور فلسطین سے متعلق کھلی بحث کے دوران پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے فلسطینی عوام کے لیے مکمل ریاست، انصاف اور عالمی قانون کے نفاذ کا بھرپور مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی کئی دہائیوں سے بدترین قبضے، نسلی امتیاز اور انسانی حقوق کی پامالی کا سامنا کر رہے ہیں۔ غزہ کی موجودہ حالت کو انہوں نے انسانیت کے لیے انہدام قرار دیا، جہاں نہ صرف معصوم جانیں بلکہ بین الاقوامی انسانی قانون بھی دفن ہو چکا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اسرائیل کے حملوں میں اب تک 58 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
ہسپتالوں، اسکولوں، اقوام متحدہ کی عمارتوں، امدادی قافلوں اور پناہ گزین کیمپوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا، جو اجتماعی سزا کے زمرے میں آتا ہے اور عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک کے مطابق غزہ میں ایک تہائی آبادی کئی دن بغیر خوراک کے گزارنے پر مجبور ہے۔
Deputy Prime Minister/Foreign Minister of Pakistan, Senator Mohammad Ishaq Dar @MIshaqDar50, is representing Pakistan at the International Conference on the "the Peaceful Settlement of the Question of Palestine and the Implementation of the Two-State Solution" being co-hosted by… pic.twitter.com/ebNqqeM7hy
— Permanent Mission of Pakistan to the UN (@PakistanUN_NY) July 28, 2025
اسحاق ڈار نے اس مسئلے کو اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور عالمی قوانین کے لیے ایک کسوٹی قرار دیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر عالمی برادری فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت میں ناکام رہی تو نہ صرف قانون کی ساکھ کو دھچکہ پہنچے گا بلکہ مجرمانہ استثنیٰ کو تقویت ملے گی۔
انہوں نے 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر قائم، القدس الشریف کو دارالحکومت بنانے والی آزاد فلسطینی ریاست کی مکمل حمایت کا اعلان کیا اور او آئی سی، عرب امن منصوبے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق دو ریاستی حل پر زور دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل فوری، مستقل اور غیر مشروط جنگ بندی یقینی بنائے اور اقوام متحدہ کی قرارداد 2735 پر مکمل عملدرآمد کرائے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ انسانی امداد تک مکمل اور محفوظ رسائی کو یقینی بنایا جائے، امدادی کارکنوں، طبی عملے اور اقوام متحدہ کے اہلکاروں کا تحفظ یقینی بنایا جائے اور قحط کی روک تھام اور زندگی بچانے والی خوراک و ادویات کی فراہمی کو فوری ترجیح دی جائے۔
انہوں نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے فلسطینی مہاجرین کی اہمیت اجاگر کی اور اس کی عالمی امداد میں اضافے کا مطالبہ کیا۔ ساتھ ہی مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں جبری بے دخلی، غیر قانونی آباد کاری اور زمین کے انضمام کو فوری طور پر روکنے کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے غزہ کی تعمیر نو کے لیے او آئی سی اور عرب دنیا کے مشترکہ منصوبے کو اہم قرار دیا جو فلسطینیوں کی عزت نفس، بحالی اور ترقی کے لیے ایک بنیادی فریم ورک مہیا کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی برادری ایک ٹھوس اور وقتی سیاسی عمل کو بحال کرے تاکہ ایک مستقل، منصفانہ اور پائیدار دو ریاستی حل ممکن ہو سکے۔
انہوں نے سعودی عرب اور فرانس کی جانب سے دو ریاستی حل پر بلائی گئی عالمی کانفرنس کو خوش آئند قرار دیا جو اس مسئلے کے حل کے لیے نئی توانائی اور عملی اقدامات کی امید ہے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ وہ ممالک جو اب تک فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کرتے وہ فوری طور پر اس تاریخی اقدام کو عملی جامہ پہنائیں۔
شام کے حوالے سے انہوں نے اس کی سالمیت، وحدت اور خودمختاری پر زور دیا اور اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ 1974 کے معاہدے کے تحت علیحدگی کے زون اور مقبوضہ جولان کی پہاڑیوں سے انخلا کرے۔
لبنان کے معاملے میں انہوں نے اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 پر مکمل عملدرآمد اور اسرائیلی جارحیت کے خاتمے پر زور دیا۔ یمن کے تنازع میں انہوں نے اقوام متحدہ اور سعودی عرب و عمان کی ثالثی کوششوں کی حمایت کی۔
ایران پر اسرائیلی حملوں کو انہوں نے ایک خطرناک نظیر قرار دیا جو خطے اور عالمی امن کو شدید خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ انہوں نے اس مسئلے کے حل کے لیے سفارت کاری اور مذاکرات کو واحد راستہ قرار دیا اور تمام فریقوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دیں۔
اپنے خطاب کا اختتام انہوں نے اس تاریخی جملے پر کیا کہ اب وقت آ چکا ہے کہ فلسطینی عوام کو وہ سب کچھ دیا جائے جو ان سے دہائیوں سے چھینا گیا ہے، یعنی انصاف، آزادی، عزت اور ایک آزاد ریاست، کیونکہ یہی مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن اور استحکام کی اصل بنیاد ہے۔