عالمی سطح پر چائلڈ لیبر ‘بچوں سے مزدوری’ میں کمی دیکھنے میں آئی ہے لیکن 2025 تک اس کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں ہو سکا ہے۔
آئی ایل اواور یونیسف کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق 2025 میں دنیا بھر میں 138 ملین بچے مزدوری کر رہے ہیں جن میں سے 54 ملین بچے خطرناک کاموں میں مشغول ہیں جو ان کی صحت، حفاظت اور ترقی کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2020 کے مقابلے میں بچوں کی مزدوری میں 20 ملین کی کمی آئی ہے لیکن عالمی سطح پر اس کا مکمل خاتمہ 2025 تک ممکن نہیں ہو سکا ہے۔
آئی ایل او کے ڈائریکٹر جنرل گلبرٹ ایف ہونگبو نے رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس رپورٹ سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ بچوں کی لیبر کو ختم کرنا ممکن ہے لیکن ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

بچوں کو مزدوری کے میدان میں نہیں بلکہ سکولوں میں ہونا چاہیے۔ والدین کو اس بات کی ضمانت دینی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں سے مزدوری کرانے کے بجائے تعلیم حاصل کرنے کا موقع دے دیں۔
مزید براں دنیا بھر میں زرعی شعبہ میں بچوں سے مزدوری کرانا سب سے زیادہ ہے جو کہ مجموعی طور پر 61 فیصد ہے۔
اس کے بعد خدمات کا شعبہ ہے جیساکہ گھریلو کام اور بازاروں میں سامان بیچنا جس میں 27 فیصد بچے ملوث ہیں۔ صنعتی شعبہ میں 13 فیصد بچے کام کر رہے ہیں جن میں کان کنی اور پیداوار شامل ہیں۔
ایشیا اور پیسیفک کے کچھ علاقوں میں 2020 کے بعد سب سے بڑی کمی دیکھنے میں آئی ہے جہاں بچوں سے مزدوری کی شرح چھ فیصد سے کم ہو کر تین فیصد تک پہنچ گئی۔ اس خطے میں بچوں کی تعداد 49 ملین سے 28 ملین رہ گئی ہے۔
مزید پڑھیں: ظالموں کی سرپرستی کرنے والا ٹرمپ اچانک غزہ کی حمایت کیوں کرنے لگا؟
لاطینی امریکا اور کیریبین میں بچوں سے مزدوری کی شرح میں کوئی تبدیلی نہیں آئی لیکن تعداد میں کچھ کمی ضرور آئی ہے جو 8 ملین سے کم ہو کر 7 ملین ہو گئی ہے۔
سب صحارا افریقہ میں بچوں سے مزدوری میں کمی آئی ہے لیکن تعداد میں کوئی خاص فرق نہیں آیا۔ اس علاقے میں 87 ملین بچے مزدوری کر رہے ہیں جو کہ عالمی سطح پر بچوں سے مزدوری کا تقریباً دو تہائی حصہ ہے۔ اس خطے میں بچوں سے مزدوری کی شرح 24 فیصد سے کم ہو کر 22 فیصد ہو گئی ہے۔
یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے کہا ہے کہ ہم نے بچوں سے مزدوری کے خاتمے کے لیے قابل ذکر پیشرفت کی ہے لیکن اب بھی بہت سے بچے کانوں فیکٹریوں اور کھیتوں میں مزدوری کر رہے ہیں۔ ہمیں بچوں سے مزدوری کا خاتمہ کرنے کے لیے زیادہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ تعلیم اور سماجی تحفظ میں سرمایہ کاری کے بغیر بچوں سے مزدوری کا خاتمہ ممکن نہیں۔
دنیا کو چاہیے کہ وہ بچوں کے لیے مفت معیاری تعلیم فراہم کرے اور بالغ افراد کے لیے مناسب کام کے مواقع پیدا کرے تاکہ وہ اپنے بچوں کو محنت کرنے کے بجائے تعلیم حاصل کرنے کا موقع دے سکیں۔

پاکستان میں بھی بچوں سے مزدوری کا مسئلہ سنگین حد تک بڑھ چکا ہے۔ پاکستان میں تقریباً 3.3 ملین بچے محنت، مزدوری کر رہے ہیں اور ان کے بنیادی حقوق جیسے تعلیم اور صحت سے محروم ہیں۔
یونیسف اوردیگر تنظیمیں پاکستان میں بچوں سے مزدوری کے خاتمے کے لیے مختلف پروگرامز پر کام کر رہی ہیں جن میں بچوں کے تحفظ کے نظام کو مضبوط بنانا بچپن کے حقوق کے لیے آگاہی پیدا کرنا اور تعلیمی مواقع فراہم کرنا شامل ہیں۔
البتہ پنجاب حکومت نے بچوں سے بھیک منگوانے پر سخت قانون متعارف کراے ہیں۔ جن میں انسداد گداگری کے قانون کے تحت پنجاب میں بھیک منگوانا ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا ہے۔ صرف ایک شخص سے بھیک منگوانے والے سرغنہ کو 3 سال قید اور 3 لاکھ جرمانہ یا دونوں ہوں گے جرمانے کی عدم ادائیگی پر مزید 6 ماہ قید ہوگی۔
مزید پڑھیں: 2025 کے پہلے چھ ماہ میں بچوں سے جنسی زیادتی کے 950 واقعات ریورٹ
ایک سے زائد افراد سے بھیک منگوانے والے کو 3 سے 5 سال قید اور 5 لاکھ تک جرمانہ یا دونوں ہوں گے، جب کہ بچوں سے بھیک منگوانے والے سرغنہ کو 5 سے 7 سال قید اور 7 لاکھ تک جرمانہ ہوگا، اور جرمانے کی عدم ادائیگی پر مزید 1 سال قید کی سزا ہوگی۔
جبری معذور کر کے بھیک منگوانے والے کو 7 سے 10 سال قید اور 20 لاکھ تک جرمانہ ہوگا جرمانے کی عدم ادائیگی پر گینگ کے سرغنہ کو مزید 2 سال قید کی سزا ہوگی۔
ایک بار سزا پانے والا شخص اگر جرم دہرائے گا تو آرڈیننس میں دی گئی سزا سے دوگنی سزا اور جرمانہ ہوگا۔
واضع رہے کہ اگرچہ عالمی سطح پر بچوں سے مزدوری میں کمی آئی ہے لیکن 2025 تک اسے مکمل طور پر ختم کرنے کا ہدف پورا کرنے کے لیے موجودہ رفتار کو 11 گنا تیز کرنے کی ضرورت ہے۔
آئی ایل او اور یونیسف نے حکومتوں سے بچوں سے مزدوری کا خاتمہ کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے کی درخواست کی ہے جن میں سماجی تحفظ، بچوں کے تحفظ کے نظام کی مضبوطی، معیاری تعلیم تک رسائی، بہتر روزگار کے مواقع، اور قوانین کی مؤثر نفاذ شامل ہیں تاکہ بچوں کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے اور انہیں بہتر مستقبل فراہم کیا جا سکے۔