Follw Us on:

سینیٹ کمیٹی نے پیکا ترمیمی بل کی منظوری دے دی : کیا اس بل سے صحافیوں کی آزادی متاثر ہوگی؟

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے پیکا ترمیمی بل کو شدید بحث و مباحثے کے بعد منظور کر لیا، تاہم اس بل پر صحافتی تنظیموں کی طرف سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ بل صحافتی آزادی اور عوامی مفاد کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

کمیٹی کا اجلاس چیئرمین فیصل سلیم کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں مختلف ارکان اور صحافتی تنظیموں نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اجلاس کے دوران صحافتی تنظیموں نے فیک نیوز کی وضاحت نہ ہونے کو اس بل کی سب سے بڑی خامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں فیک نیوز کے بارے میں کسی معیار کی وضاحت نہیں کی گئی ہے، جس سے یہ امکان پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ بل غیرضروری طور پر صحافیوں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔

صحافتی تنظیموں کا کہنا ہےکہ فیک نیوز کے حوالے سے فیصلہ کرنے کے معیار اور طریقہ کار پر سوالات اٹھائے گئے ہیں، اور اس کے بارے میں کوئی ٹھوس رہنمائی نہیں فراہم کی گئی۔ ان تنظیموں نے اس بل میں فیک نیوز کی تعریف کو بھی مبہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی بنیاد پر کسی بھی خبر یا مواد کو فیک نیوز کے طور پر قرار دینا ممکن ہو سکتا ہے، جس سے صحافیوں کی آزادی متاثر ہو گی۔

سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بھی اس بل کی جلدی منظوری پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ کم وقت میں اس قانون کا بغور مطالعہ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بل کی تفصیل کو سمجھنے کے لیے زیادہ وقت درکار ہے تاکہ اس کی تمام پہلوؤں کو گہرائی سے جانچا جا سکے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ قانون سازی میں جلدبازی سے گریز کیا جانا چاہیے تاکہ اس کے اثرات کو درست طور پر سمجھا جا سکے۔

چیئرمین کمیٹی فیصل سلیم رحمان نے صحافتی تنظیموں سے سوال کیا کہ وہ اپنے تحریری تحفظات کیوں پیش نہیں کر رہے اور ان سے درخواست کی کہ وہ کمیٹی کے سامنے اپنے اعتراضات پیش کریں۔ اس موقع پر صحافیوں کی تنظیموں نے اپنے تحفظات کو واضح کرتے ہوئے اس بل کی بعض شقوں پر سوالات اٹھائے۔ صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس بل کے نفاذ سے صحافیوں کی آزادی متاثر ہو سکتی ہے، جس کے نتائج نہ صرف صحافت بلکہ عوامی مفاد کے لئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اس بل کے جواز کو مضبوط قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ قانون عوام کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ پیکا بل میں ترامیم کی گئی ہیں تاکہ اس کا اطلاق بہتر طریقے سے ہو سکے اور فیک نیوز کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بل کی مدد سے حکومت فیک نیوز کے خطرات کو کم کر سکے گی اور عوام کو درست معلومات فراہم کرنے کا عمل مزید موثر بنے گا۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے بھی فیک نیوز کے مسئلے کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ اس حوالے سے قانون سازی ضروری ہے تاکہ عوام کو گمراہ کن معلومات سے بچایا جا سکے۔ تاہم، انھوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اس بل کی تیاری کے دوران صحافیوں اور میڈیا تنظیموں سے مشاورت کی کمی محسوس ہوئی ہے، جو کہ قانون سازی کے عمل کو مزید شفاف اور موثر بنانے کے لئے ضروری تھی۔

کمیٹی کے اجلاس میں اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا کہ یہ بل اگر صحافیوں کی آزادی پر اثر انداز ہو گا تو اس کے خلاف احتجاج کیا جائے گا۔ مختلف ارکان نے کہا کہ اگر اس بل کے ذریعے صحافیوں کے حقوق پر قدغن لگانے کی کوشش کی گئی تو وہ اس کے خلاف بھرپور احتجاج کریں گے۔

آخرکار، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے پیکا ترمیمی بل کی منظوری دے دی، تاہم کمیٹی کے ارکان نے اس بات پر زور دیا کہ اس بل پر مزید مشاورت کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ صحافتی تنظیموں اور دیگر متعلقہ فریقین کی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بل میں مزید بہتری کی گنجائش ہو سکتی ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کی جانب سے پیکا ترمیمی بل کی منظوری کے باوجود اس بل کے مستقبل پر اب بھی سوالات اٹھ رہے ہیں، اور اس کی حتمی شکل میں صحافتی تنظیموں کی مشاورت کے بعد ہی کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس