Follw Us on:

سیاسی قیادت کا فقدان یا حکومتی نااہلی؟ بلوچستان میں آئے دن احتجاجات کیوں ہو رہے ہیں؟

مادھو لعل
مادھو لعل
Whatsapp image 2025 07 30 at 12.30.29 am
ہمیں پیناڈول کی گولی کی بجائے ریاست کلاشن کی گولی دیتی ہے۔ (فوٹو: جماعتِ اسلامی پاکستان)

بلوچستان، پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا لیکن وسائل کے باوجود سب سے پسماندہ صوبہ، ایک بار پھر مسلسل احتجاجوں اور مظاہروں کی زد میں ہے۔ آئے دن کہیں لاپتہ افراد کے لواحقین سراپا احتجاج ہوتے ہیں، تو کہیں طلبہ، سرکاری ملازمین، اساتذہ، مزدور یا تاجر سڑکوں پر اپنے مطالبات لیے نکل آتے ہیں۔

بلوچستان کے مختلف شہروں، خاص طور پر کوئٹہ، تربت، گوادر، خاران اور چاغی میں احتجاج اب ایک معمول بن چکا ہے۔ پچھلے چند مہینوں میں صرف لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے 20 سے زائد دھرنے دیے جا چکے ہیں۔ گوادر میں ماہی گیروں نے چینی ٹرالروں کے خلاف احتجاج کیا، تو کوئٹہ میں سرکاری اساتذہ تنخواہوں میں اضافے کے لیے سراپا احتجاج بنے۔

اس بار جماعتِ اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کی قیادت میں ‘حق دو بلوچستان’ نام سے لانگ مارچ کا آغاز ہوا۔ کوئٹہ سے اسلام آباد کےلیے روانہ ہونے والے جماعت کی قافلے نے 25 جولائی 2025 کو وفاقی دارالحکومت میں بلوچستان کے حل طلب مسائل کے لیے آٹھ نکاتی ایجنڈے پر دھرنا دینے کا اعلان کیا۔

ایجنڈے میں شامل بنیادی مطالبات میں بلوچستان کے فیصلوں میں وفاقی مداخلت کے خاتمے کا مطالبہ، ایف سی کی فوراً واپسی و چیک پوسٹوں پر عوام کی رسائی میں آسانی، بارڈر کی بندش ختم کر کے روا داری بحال کی جائے، جبری گمشدگیوں کا سلسلہ روکا جائے اور متعلقہ افراد بازیاب کیے جائیں وغیرہ شامل تھے۔

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے امیر جماعتِ اسلامی بلوچستان مولانا ہدایت الرحمان کاکہنا تھا کہ بلوچستان تحریک شروع کرنے کا اصل مقصد یہ تھا کہ 1947 سے ہی ریاست کی جانب سے کی گئی ناانصافی کا یہ ردِعمل ہے، ہمیں پیناڈول کی گولی کی بجائے ریاست کلاشن کی گولی دیتی ہے۔ اسلام آباد جاکر ہم حکمرانوں تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے نکلے ہیں۔

Jamat e islami balochistan
اسلام آباد جاکر ہم حکمرانوں تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے نکلے ہیں۔ (فوٹو: پاکستان میٹرز)

ان کے علاوہ ریکوڈک، گوادر پورٹ جیسے منصوبوں کی شفافیت اور عوامی شمولیت یقینی بنائی جائے، وسائل کی تقسیم میں شمولیت، سیاسی آزادیوں میں پابندیوں کا خاتمہ اور سیاسی کارکنوں کی فوری رہائی، جرائم کے جھوٹے مقدمات ختم کیے جائیں جیسے مطالبات تھے۔

یہ احتجاجات صرف وقتی ردعمل نہیں، بلکہ برسوں پر محیط محرومیوں، سیاسی بےچینی، حکومتی عدم توجہی اور ناقص گورننس کا نتیجہ ہیں، جس کا بوجھ عام بلوچ شہری برداشت کر رہا ہے۔

ان احتجاجات نے عوامی و سیاسی حلقوں میں کئی سوالات اٹھائے ہیں کہ آخر کیوں آئے روز بلوچستان میں بدامنی اور احتجاجات دیکھنے کو ملتے ہیں؟ کیا ان کی وجہ حکومتی نااہلی ہے یا پھر سیاسی قیادت کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے یہ احتجاجات آئے دن طول پکڑ رہے ہیں؟

سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان میں احتجاجات کی بڑی وجہ صوبے کی قیادت کا کمزور ہونا اور مرکز کی جانب سے دیرینہ مسائل پر سنجیدگی سے توجہ نہ دینا ہے۔

مزید پڑھیں: حکومت اور جماعت اسلامی کے مذاکرات ختم: ’بلوچستان لانگ مارچ کل پلان کے مطابق اسلام آباد جائے گا

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے رہنما جماعتِ اسلامی عبدالمتین اخونزادہ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ہر طرف بدامنی ہے، تعلیم و روزگار نہیں ہے، بارڈر کے چاروں راستے بند ہیں، ہمارے کاروبار بند ہیں اور ہم اسی وجہ سے اسلام آباد جارہے ہیں تاکہ وہاں جاکر پوچھیں کہ کیوں آپ کا ہمارے ساتھ یہ رویہ ہے؟ کیا آپ لوگ ہمیں زندہ درگور کرنا چاہتے ہیں؟

حق دو بلوچستان کا یہ مارچ مولانا ہدایت الرحمان کی قیادت میں کوئٹہ سے روانہ ہوا اور راستے میں ملتان کے قریب مظفرگڑھ کے مقام پر اس احتجاج کو پولیس کی جانب سے گھیر لیا گیا اور آگے بڑھنے سے منع کردیا گیا، 24 گھنٹوں تک یہ کاررواں وہیں مظفرگڑھ میں چناب پل کے مقام پر بیٹھا رہا۔

اس کے بعد پنجاب حکومت سے مذاکرات کے بعد اس قافلے کو ملتان داخل ہونے دیا گیا اور پھر لاہور کی طرف روانہ ہوا اور 28 مئی کی شام کو لاہور پہنچا، اگلی صبح اس قافلے کو اسلام آباد کی جانب سے روانہ ہونا تھا مگر پنجاب پولیس کی جانب سے جماعتِ اسلامی کے ہیڈکوارٹر منصورہ کو گزشتہ روز صبح سویرے گھیر لیا گیا اور کسی بھی پرامن احتجاج سے منع کردیا گیا۔

پولیس کی جانب سے منصورہ کو گھیرنے کے بعد سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب جماعت اسلامی کے قائدین سے مذاکرات کے لیے منصورہ پہنچیں۔ مذاکرات میں نائب امیر جماعتِ اسلامی لیاقت بلوچ، سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی امیر العظیم اور مولانا ہدایت الرحمان بلوچ شریک ہوئے، مگر یہ مذاکرات ناکام ہوگئے۔

Maryam aurangzeb
سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب جماعت اسلامی کے قائدین سے مذاکرات کے لیے منصورہ پہنچ گئیں۔ (فوٹو: پاکستان میٹرز)

مذاکرات کی ناکامی کے بعد نائب امیر جماعتِ اسلامی لیاقت بلوچ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کارواں کو اسلام آباد جانے سے روکنا درست عمل نہیں، پنجاب حکومت کا یہ رویہ بلوچستان کے عوام کے لیے منفی پیغام ہے۔ پرامن احتجاج کو روکنا قومی سلامتی کے ساتھ کھلواڑ ہے، کسی قسم کی پرتشدد یا غیر آئینی حرکت کی ہم حمایت نہیں کرتے۔ وزیرِاعلیٰ پنجاب مریم نواز سے فون پر گفتگو کی اور اقدامات سے آگاہ کیا، مرکزی اور پنجاب کمیٹیوں کی باقاعدہ نوٹیفکیشن کا وعدہ کیا گیا،  لانگ مارچ طے شدہ پلان کے مطابق کل اسلام آباد کی جانب بڑھے گا۔

واضح رہے کہ بلوچ عوام گزشتہ ایک عرصے سے بدامنی کا شکار ہے اور بارہا احتجاجات اور لانگ مارچز ملک کے مختلف حصوں میں دیکھنے کو ملے ہیں لیکن کوئی خاطرخواہ حل تاحال نہیں نکل سکا۔

بلوچستان میں جب بھی کوئی مسئلہ اٹھتا ہے، تو وفاق محض بیانات تک محدود رہتا ہے۔ صوبے میں نہ کوئی واضح پالیسی نظر آتی ہے اور نہ ہی کوئی طویل المدتی منصوبہ بندی۔ یہی وجہ ہے کہ عوام خود سڑکوں پر آنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ اب انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی ایک مثال بن چکا ہے۔ حالیہ دنوں میں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی ماؤں، بہنوں اور بچوں کا دھرنا کئی روز تک جاری رہا۔

یہ بھی پڑھیں: حالیہ اغوا اور گرفتاریاں، کیا پاکستان میں صحافت اب ناممکن ہے؟

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے بارہا ان شکایات کا نوٹس لینے کے دعوے کیے گئے، مگر عملی طور پر کوئی خاطر خواہ پیش رفت سامنے نہیں آئی۔

احتجاج صرف لاپتہ افراد یا روزگار سے متعلق نہیں، تعلیمی اداروں اور صحت کے شعبے سے وابستہ افراد بھی مسلسل سراپا احتجاج ہیں۔ بلوچستان میں اساتذہ تنظیمیں مہینوں سے تنخواہوں میں اضافے، سروس اسٹرکچر اور مستقل تقرریوں کے لیے مظاہرے کر رہی ہیں۔

بلوچستان میں بے روزگاری کی شرح ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان مایوسی کا شکار ہیں، جس کا نتیجہ یا تو سڑکوں پر احتجاج کی صورت میں نکلتا ہے یا پھر وہ انتہا پسندی اور جرائم کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔

بلوچستان حکومت اکثر احتجاج کے بعد وقتی طور پر کمیٹیاں بنا دیتی ہے یا مذاکرات کے نام پر مظاہرین کو منتشر کر دیتی ہے، مگر مستقل حل کی جانب کوئی ٹھوس قدم نظر نہیں آتا۔

Balochistan people
بلوچستان میں بے روزگاری کی شرح ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ (فوٹو: فائل)

ماہرین کا ماننا ہے کہ بلوچستان کے مسائل کا حل صرف سڑکوں پر احتجاج سے ممکن نہیں۔ اس کے لیے ایک جامع سیاسی حکمت عملی، شفاف گورننس، وفاق کی سنجیدگی اور سب سے بڑھ کر مقامی قیادت کی ایمانداری اور اہلیت ضروری ہے۔

جماعت اسلامی کا احتجاج واضح کرتا ہے کہ بلوچستان میں سیاسی اور معاشی فیصلوں میں وفاقی اجارہ داری اور سیکیورٹی فورسز کا نامناسب استعمال عوامی محرومیوں کو بڑھا رہا ہے۔ حکومتی اداروں کی نااہلی اور سیاسی بےچینی کی وجہ سے عوام احتجاج کو اپنا ہاتھِ آخری ٹھہرانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

بلوچستان میں احتجاجات محض ناراضگی کا اظہار نہیں، بلکہ یہ طویل المدتی محرومیوں، ریاستی ظلم، روزگار کی ناہمواری اور سیاسی مداخلتوں کا ردِ عمل ہیں۔ جماعتِ اسلامی کے احتجاجی مظاہرے اور تحریکیں اس بات کا عکاس ہیں کہ عوام اب محض مظاہرے نہیں، بلکہ حقیقی حل اور شفاف انصاف کے متلاشی ہیں۔

اب کیا یہ احتجاج بھی کوئی نتیجہ لاتا ہے یا پھر ماضی میں ہونے والے مذاکرات اور احتجاجات کی طرح یہ بھی بے نتیجہ رہے گا؟ اس کا جواب تو وقت ہی بتائے گا، مگر ایک بات تو طے ہے کہ حالات کی نزاکت یہی مطالبہ کرتی ہے کہ ان مسائل کو سنجیدہ لیتے ہوئے حکومت بلوچوں کے ساتھ مذاکرات کرے تاکہ ملک پرامن بن سکے۔

حکومت کو چاہئے کہ بیانات کی بجائے عملی اقدامات کرے، زمینی حقائق کا جائزہ لے اور بلوچستان کے عوام کو ان کے آئینی اور انسانی حقوق دے کر ایک مستقل خوشحال اور پُرامن مستقبل کی راہ ہموار کرے۔

مادھو لعل

مادھو لعل

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس