غزہ میں شیر خوار بچوں کے لیے فارمولا دودھ کی شدید قلت نے والدین کو خطرناک طریقے اپنانے پر مجبور کر دیا ہے۔ بھوک سے نڈھال بلکتے بچوں کو زندہ رکھنے کے لیے انہیں چنے پیس کر کھلائے جا رہے ہیں، جو ان کی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ غزہ میں امداد کی رسائی میں شدید کمی کے باعث شیر خوار بچوں کا فارمولا دودھ نایاب ہو چکا ہے۔ بہت سی مائیں غذائی قلت کی وجہ سے دودھ پلانے سے قاصر ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے منتحٰی نامی بچی کی پھوپھی عبیرہ محمود کا کہنا تھا کہ اگر یہ بچی بول سکتی، تو وہ ہم پر چیختی اور پوچھتی کہ ہم اسے کیا کھلا رہے ہیں۔ منتحٰی کو جب اس کی نانی سرنج کے ذریعےسے چنے کا پیسٹ کھلا رہی تھیں اس وقت اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار نمایاں تھے۔
منتحیٰ کا خاندان غزہ میں موجود ان بے شمار خاندانوں میں سے ایک ہے، جو شیر خوار بچوں کو خوراک دینے کے لیے کربناک فیصلے کرنے پر مجبور ہیں خاص طور پر ان بچوں کے لیے جن کی عمر چھ ماہ سے کم ہے، جو ٹھوس خوراک جلدہضم نہیں کر پاتے۔
منتحٰی کےخاندان کا کہنا ہے کہ منتحیٰ کی ماں کو دوران حمل گولی لگی تھی، جس کے بعد وہ بے ہوشی کی حالت میں قبل از وقت زچگی کے دوران بچی کو جنم دے کر چند ہفتے بعد انتقال کر گئی۔ شفا اسپتال کے ڈائریکٹر نے 27 اپریل کو منتحیٰ کی پیدائش کے چار دن بعدسوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک پر ایسے ہی ایک واقعے کے بارے میں بتایا تھا۔

بچی کی نانی نیمہ حمودہ نے کہا کہ میں اس بچی کے مستقبل سے خوفزدہ ہوں ہم نے اس کا نام اس کی ماں کے نام پر رکھا ہے،اس امید پر کہ وہ زندہ رہے گی اور لمبی عمر پائے گی، مگر میں خوفزدہ بھی ہوں کیونکہ ہم ائے دن بچوں اور بڑوں کوبھوک سے مرتا دیکھ رہے ہیں۔منتحیٰ کا وزن اب تقریباً 3.5 کلوگرام ہے، جو ایک مکمل مدت میں پیدا ہونے والی بچی کے اوسط وزن کا تقریباً آدھا ہے۔ منتحٰی کو کھانے کے بعد قے اور اسہال جیسی شکایات رہتی ہیں۔
ترجمان ادارہ صحت، امدادی کارکنان اور غزہ کے خاندانوں نے رائٹرز کو بتایا کہ کئی لوگ بچوں کو جڑی بوٹیوں اور چائے کا پانی پلاتے ہیں، یا روٹی اور تل پیس کر کھلاتے ہیں۔ انسانی امدادی اداروں نے اس بات کی بھی اطلاع دی ہے کہ کچھ والدین پتے ابال کر پینے پر مجبور ہیں، جانوروں کی خوراک کھا رہے ہیں اور ریت کو پیس کر آٹا بنا رہے ہیں۔
غزہ کے صحت حکام کے مطابق بھوک سے مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اب تک 154 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں 89 بچے شامل ہیں، جن میں سے اکثر حالیہ چند ہفتوں میں جاں بحق ہوئے۔