پاکستان کی عالمی سوداگری اور تجارتی محاذ پر جو نئی لہر دوڑ رہی ہے اس کی بنیاد ایک بڑا سوال ہےکہ کیا امریکا ایشیاء میں چینی اثرورسوخ کو پیچھے چھوڑنے میں کامیاب ہو سکے گا؟ عالمی سطح پر حالیہ ٹریف اور معاہدے اس سوال کو نیا زاویہ دیتے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے حال ہی میں انڈیا پر 25 فیصد امپورٹ ٹیکس عائد کیا ہے، جس کا مقصد انڈیا کے روس سے توانائی اور عسکری روابط کو دباؤ میں لانا تھا اور ساتھ ساتھ تجارتی توازن کو بگاڑنے سے روکنا تھا۔ اگرچہ ان مذاکرات ابھی جاری ہیں، مگر اس اقدام نے انڈیا کی صنعتوں اور منڈیوں میں اضطراب پیدا کر دیا ہے۔
ماہرِ عالمی امور ابوالحسن نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا چین کے اثرورسوخ کو کم کرنے کے لیے پاکستان سے اقتصادی شراکت داری بڑھا رہا ہے۔ اس معاہدے کا مقصد چین پر دباؤ ڈالنا اور پاکستان کو متنوع شراکت دار فراہم کرنا ہے، نہ کہ صرف انڈیا کے خلاف استعمال کرنا۔
ایک ہی روز میں ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ تیل، توانائی اور زمینی ذخائر کے معاہدے کا اعلان بھی کیا، جس میں بتایا گیا کہ مستقبل میں پاکستان اپنے تیل برآمد کرے گا اور انڈیا تک بھی پہنچ سکتا ہے ۔ یوں بیک وقت انڈیا پر پابندیاں اور پاکستان کو کاروباری راہ کھولنے کا اشارہ سامنے آیا۔
اس دوران پاکستان نے امریکا کے سامنے زیرو ٹیرف تجارتی معاہدے کی پیشکش کر دی، منتخب اشیاء پر کسی قسم کا ٹیکس نہ لینے کا وعدہ کیا گیا تاکہ دوطرفہ تجارت میں توسیع ہو سکے۔
Pakistan concludes deal with USA, AlhamdoLilah. pic.twitter.com/N3CXyQdIXd
— Ishaq Dar (@MIshaqDar50) July 31, 2025
یہ تمام پیش رفت چین کے ایشیائی اثرورسوخ کے چیلنج کے تناظر میں سامنے آ رہی ہیں۔ چین بھی بی آر آئی، سی پیک اور آزاد تجارتی معاہدوں کے ذریعے جنوبی ایشیاء میں اپنا ہِوالہ مضبوط کر رہا ہے۔ پاکستان–چین فری ٹریڈ ایگریمنٹ کی دوسری مرحلے کی شروعات ہو چکی ہے جس کے تحت دونوں ممالک نے کئی شعبوں میں تجارتی پابندیاں کم کی ہیں۔
پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے ماہر عالمی امور ڈاکٹر پرویز الحسن نے کہا ہے کہ امریکا نے انڈیا پر ٹیرف لگا کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا، مگر پاکستان کی طرف سے معاہدے کی پیشکش نے اسے اسٹریٹجک تنوع اختيار کرنے کا موقع دیا، یہ یک طرفہ دباؤ کے مقابلے میں ایک تمام رخ حکمت عملی ہے۔
اقتصادی تجزیہ کار سعدیہ محمود کہتی ہیں کہ چین-پاکستان گہرے تجارتی اور دفاعی روابط کے باوجود پاکستان اگر امریکی مارکیٹ میں اپنا حصہ بڑھاتا ہے تو خطے میں تجارتی توازن بدل سکتا ہے، مگر یہ آمدنی صرف ٹیکس کم کرنے سے نہیں بلکہ ڈیجیٹل بزنس، ٹیکسٹائل اور انفراسٹرکچر میں استقلال کے ذریعے ممکن ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستانی ایک دن انڈیا کو تیل فروخت کر رہے ہوں گے، ٹرمپ کا پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدہ طے پانے کا اعلان
ماہر دفاعی معاملات ڈاکٹر امینہ رشید بتاتی ہیں کہ انڈیا امریکا کے دفاعی اور اقتصادی شراکت دار کے طور پر اب ایک مضبوط کھلاڑی بن چکا ہے، مگر اس کے خلاف ٹیرف ایڈوانٹیج پاکستان کو وقتی فائدہ دے سکتا ہے۔ تاہم چین اب بھی سی پیک اور بی آر آئی کے ذریعے پاکستان میں بہت بڑا اثاثہ بن چکا ہے۔
یہ تمام آراء ایک مشترکہ تصویر پیش کرتی ہیں کہ امریکا نے چین کے اثرورسوخ کو چیلنج کرنے کے لیے انڈیا پر پابندیاں عائد کی ہیں اور پاکستان کے لیے اقتصادی راستے کھولے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ صرف مختصر مدت کی تزویراتی حکمت ہے یا طویل المدت توازن کی بنیاد ہے؟
پروفیسر ابوالحسن کہتے ہیں کہ امریکا پاکستان کو صرف انسٹرومنٹل کے طور پر نہیں بلکہ ایک تجارتی اور علاقائی استحکام کے شراکت دار کے طور پر دیکھ رہا ہے، تاکہ انڈیا–چین–پاکستان توازن میں متنوع تعلقات برقرار رہیں۔

یہ صورت حال پاکستان کے موقع اور خطرے دونوں کو واضح کرتی ہے۔ اگر امریکی معاہدے حقیقت میں عملی شکل اختیار کریں، تو پاکستان کے کاروبار اور توانائی سیکٹر کو نئی راہیں مل سکتی ہیں۔ مگر اگر یہ صرف سیاسی نشان بازی تک محدود رہ گیا، یا چین کے گہرے منصوبے نظریاتی وابستگی میں تبدیل ہوئے، تو امریکا کا منصوبہ شکست بھی کھا سکتا ہے۔
ماہرِ عالمی امور ابوالحسن نے کہا ہے کہ امریکا کے دلچسپی بڑھانا پاکستان کو اقتصادی استحکام، توانائی ترقی (تیل کے معاہدے) اور عالمی مالی امداد کا دروازہ کھول رہا ہے، البتہ چین کے ساتھ بڑھتے قرضے اور سیاسی انحصار کے باعث بھارت‑چین توازن میں دشواری ہو سکتی ہے۔
پاکستان کے لیے وقت کی رفتار زیادہ ہے۔ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ صرف ایک گیئر کی جگہ خود کو دوسرے گیئر میں بھی فٹ کر سکے گا یا پھر چین کی طویل المدتی منصوبہ بندی کے حصے کی حیثیت سے ہی رہا اور سوال سب سے بڑا یہی ہے کہ کیا امریکا ایشیاء میں چینی اثرورسوخ کو واقعی مات دے پائے گا؟ یا پھر اسے صرف ایک نیا تاثر دینے والی جنگ سمجھ کر بھول کر چلے جائیں گے؟