Follw Us on:

انڈیا چین کا سب سے بڑا ’تجارتی پارٹنر‘، مگر خسارہ کیوں بڑھ رہا ہے؟

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
China
انڈیا کا چین سے تجارتی حجم 2015-16 میں 71 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2024-25 میں 128 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ (تصویر: ساوتھ چائینہ)

انڈیا اور چین کے درمیان تجارتی تعلقات گزشتہ دہائی میں ایک نمایاں رفتار سے بڑھنے کے باوجود انڈیا کی معیشت کے لیے خطرات کا باعث بنے ہیں۔

 انڈیا کا چین سے تجارتی حجم 2015-16 میں 71 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2024-25 میں 128 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے جو 81 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔ تاہم اس میں زیادہ تر اضافہ چین سے درآمدات میں 84 فیصد اضافے کی وجہ سے ہوا ہے۔

2024-25 میں چین سے ہونے والی درآمدات انڈیا کے مجموعی درآمدات کے 16 فیصد تک پہنچ گئیں جو تقریباً 114 ارب ڈالر بنتی ہیں۔ چین اس وقت انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔

انڈیا کی چین کو برآمدات میں نسبتاً سست ترقی نے تجارتی خسارے کو مزید بڑھا دیا ہے جو 2024-25 میں ایک ریکارڈ 99.2 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔

 اس خسارے کا تقریباً 35 فیصد چین سے آ رہا ہے جو انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی خسارہ ہے۔ چین سے درآمدات کی سب سے بڑی مقدار مشینری اور الیکٹرانکس سے متعلق ہے جن میں الیکٹرانک انٹیگریٹڈ سرکٹس، ٹیلیفون سیٹس اور فوٹو وولٹک سیلز شامل ہیں۔

India
اس خسارے کا تقریباً 35 فیصد چین سے آ رہا ہے جو انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی خسارہ ہے۔ (تصویر: ائی ایس پی آئی)

 علاوہ ازیں کیمیائی مصنوعات جیسے فارماسیوٹیکلز اور کھاد بھی اہم درآمدات میں شامل ہیں۔ چین سے درآمد ہونے والی مصنوعات کا 75 فیصد اعلیٰ اور متوسط ٹیکنالوجی کی مصنوعات پر مشتمل ہے جنہیں انڈین صنعتوں کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے۔

یہ بھی واضح ہوا ہے کہ چین کے ساتھ انڈیا کی تجارتی تعلقات میں توازن کی کمی زیادہ تر غیرمقابلے مصنوعات کی درآمدات کی وجہ سے ہے۔ انڈیا نے چین سے جو 50 سب سے بڑی مصنوعات درآمد کیں ان میں سے 23 ایسی تھیں جو عالمی سطح پر دیگر ممالک سے سستی قیمتوں پر دستیاب تھیں۔

 ان غیرمقابلے مصنوعات کی قیمتیں زیادہ ہونے کے باوجود ان کی درآمدات جاری ہیں جس کی ایک وجہ چین کی برآمدی حکمت عملی ہے جس میں قرضہ کی سہولت کم سود والے مالیاتی ذرائع اور ٹیکنیکل تعاون شامل ہے۔

انڈیا کے لیے چین سے ان غیرمقابلے درآمدات پر انحصار کو کم کرنا ایک اہم حکمت عملی ہے۔ اس مقصد کے لیے انڈیا کو دیگر ملکوں سے سستی اور مقابلے کی مصنوعات درآمد کرنے پر زور دینا ہوگا۔

مزید پڑھیں: امریکا نے پاکستان کی برآمدات پر 19 فیصد ٹیرف عائد کر دیا، صنعتوں پر کیا اثرات ہوں گے؟

اس کے ساتھ ہی انڈیا کو چین سے غیر اسٹریٹجک شعبوں میں غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری ایف ڈی آئی کو بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ ملکی مینوفیکچرنگ کی صلاحیت کو مستحکم کیا جا سکے۔

چین کے ساتھ تجارتی تعلقات میں توازن لانے کے لیے انڈیا کا موقف یہ ہے کہ اس کا مقصد مکمل طور پر چین کی سپلائی چین سے علحیدہ ہونا نہیں ہے کیونکہ چین عالمی سپلائی چینز میں گہری انضمام کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

انڈیا کو چین سے درآمدات میں کمی لانے کے بجائے چین میں براہ راست سرمایہ کاری بڑھانے اور دیگر ملکوں سے متبادل فراہم کنندگان کی طرف قدم بڑھانا چاہیے۔

واضع رہے کہ انڈین حکومت نے 2023-24 کے اقتصادی سروے میں کہا ہے کہ انڈیا کا چین سے مکمل طور پر علیحدہ ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ چین کے ساتھ گہرے تجارتی تعلقات انڈیا کی صنعت کے لیے اہم ہیں۔

اس کے باوجود انڈیا کی حکومتی پالیسی یہی ہے کہ وہ چین سے درآمدات کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرے گا اور غیرمقابلے درآمدات پر قابو پانے کی کوشش کرے گا۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس