حق دو بلوچستان لانگ مارچ کے اختتام سے قبل منصورہ لاہور میں جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ اور جماعتِ اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا ہدایت الرحمان نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔
نائب امیر لیاقت بلوچ نے کہا کہ یہ مارچ ہر اعتبار سے کامیاب رہا اور تمام شرکاء مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اسلام آباد میں عوام نے جس استقامت، شعور اور محب وطن جذبے کا مظاہرہ کیا، وہ مثالی تھا۔ مارچ میں خواتین، بچوں اور کارکنان کی بھرپور شرکت نے ثابت کیا کہ بلوچستان کے عوام پرامن جدوجہد، آئین اور ریاست پر یقین رکھتے ہیں۔
لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ اس مارچ نے پہلی بار بلوچستان کے مسائل کو حقائق کی بنیاد پر بھرپور انداز میں اجاگر کیا۔ یہ کسی کے اشارے پر یا بیرونی مداخلت کے تحت نہیں ہوا، بلکہ ایک خالص عوامی، آئینی اور جمہوری تحریک تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس مارچ کے نتیجے میں پنجابی بلوچ نفرت کی فضا کم ہوئی اور بین الصوبائی رابطے مضبوط ہوئے۔ پنجاب کے عوام نے بلوچستان کے لیے محبت اور یکجہتی کا عملی اظہار کیا۔
انہوں نے لاپتہ افراد کے لیے احتجاج کرنے والی خواتین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی آواز دبانے کی کوشش فیڈریشن اور قومی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے عوام ہائبرڈ یا آمرانہ نظام کو قبول نہیں کریں گے۔ ہم جمہوریت، آئین کی بالادستی اور شفاف انتخابات کا نظام چاہتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ڈیرہ غازی خان اور مظفرگڑھ میں گرفتاریوں اور رکاوٹوں کے باوجود مارچ اپنے عزم پر قائم رہا۔ منصورہ میں محاصرے کے باوجود پرامن حکمت عملی سے حالات سنبھالے گئے۔ اگر جماعت اسلامی چاہتی تو ملک گیر احتجاج کیا جا سکتا تھا، لیکن قومی مفاد میں تحمل کا مظاہرہ کیا گیا۔
لیاقت بلوچ نے کہا کہ مذاکرات میں پنجاب حکومت، طلال چوہدری اور دیگر وزراء نے کلیدی کردار ادا کیا۔ وفاقی حکومت نے جماعت اسلامی کے مطالبات کو جائز تسلیم کرتے ہوئے تین بنیادی معاملات پر فوری عملدرآمد کا اعلان کیا جن میں بارڈر ٹریڈ کی بحالی، چیک پوسٹوں پر رویے کی اصلاح اور ڈالر مافیا کے خلاف کارروائی شامل ہیں۔
انہوں نے تجویز دی کہ ایران کے صدر کے حالیہ دورے کو موقع بناتے ہوئے ایران کے ساتھ بارڈر ٹریڈ فوری طور پر بحال کی جائے۔
گوادر کے ماہی گیروں کے روزگار کے تحفظ اور غیر قانونی فشنگ پر پابندی کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ چیک پوسٹوں پر عوام کے ساتھ ذلت آمیز رویہ ختم کرنے کے حکومتی وعدے کے ساتھ ساتھ لاپتہ افراد کی خواتین کے ساتھ ملاقات کے لیے پارلیمانی خواتین پر مشتمل کمیٹی بنانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ اسلام آباد میں دھرنا دینے والی خواتین سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے لیاقت بلوچ نے کہا کہ ہم اسلام آباد کو گونگا بہرا نہیں بننے دیں گے۔

حکومت نے بارڈر، چیک پوسٹوں اور لاپتہ افراد سے متعلق امور پر فوری نوٹیفکیشن جاری کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ مذاکرات اور رابطے کے لیے حکومت کی طرف سے طلال چوہدری اور جماعت اسلامی کی طرف سے لیاقت بلوچ کو فوکل پرسن نامزد کیا گیا ہے۔ بلوچستان کی اپوزیشن اور حکومتی اتحادی جماعتوں کو بھی مذاکراتی کمیٹی میں شامل کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ نے نہ صرف سنجیدہ مذاکرات بلکہ قومی یکجہتی کے لیے بھی راہ ہموار کی ہے۔ جماعت اسلامی کی قیادت، خاص طور پر مولانا ہدایت الرحمن کی حکمت عملی اور تدبر قابل تحسین ہیں۔ اس مارچ کا مقصد صرف احتجاج نہیں تھا بلکہ بلوچستان کے مسائل کے مستقل حل کی بنیاد رکھنا تھا۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ سنجیدہ مکالمہ، تدبر اور آئینی جدوجہد ہی پاکستان میں مثبت تبدیلی کا راستہ ہے۔
مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ وہ قوموں کے درمیان نفرت کو ختم کرنے اور ملک میں باہمی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے میدان میں نکلے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چمن سے لے کر گوادر تک کے بارڈر پر25 لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے، اس لیے ان بارڈرز اور چیک پوسٹوں پر اصلاحات اور وفاق کی جانب سے کیے گئے وعدوں پر فوری عملدرآمد ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ لاپتا افراد کی بازیابی، ایف سی چیک پوسٹس پر عوامی تذلیل اور بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال جیسے اہم معاملات پر بات چیت ہوئی ہے۔ ان کے بقول بلوچستان میں صرف چند گھنٹوں کے لیے حکومتی رٹ نظر آتی ہے، جبکہ باقی وقت بدامنی اور بے یقینی کا راج ہوتا ہے۔
مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ سی پیک سے ترقی ضرور ہوئی ہے، لیکن آج بھی گوادر کے عوام پانی اور بجلی جیسی بنیادی سہولیات کو ترس رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کو چھ ماہ کی مہلت دی گئی ہے، اگر وعدوں پر عملدرآمد نہ ہوا تو دوبارہ اسلام آباد کا رخ کیا جائے گا۔
انہوں نے اعلان کیا کہ گلی گلی اور محلے محلے عوامی کمیٹیاں قائم کی جائیں گی تاکہ حکومتی وعدوں پر عملدرآمد کی نگرانی کی جا سکے۔ مولانا نے کہا کہ وہ نہ ضدی ہیں نہ شدت پسند، بلکہ مسائل کے حل کے لیے پرامن جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔
انہوں نے جماعت اسلامی کی قیادت، کارکنوں اور پنجاب کے عوام کا خصوصی شکریہ ادا کیا، جنہوں نے بلوچ عوام کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم پنجابی بلوچ نفرت کو ختم کرنے نکلے ہیں، کیونکہ ہم سب پاکستانی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد جانا ان کا آئینی حق ہے، اور اگرچہ فی الحال وہ نہیں گئے، لیکن یہ دروازہ کھلا ہے۔
مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ فیڈرل معاملات پر مذاکرات جاری رہیں گے اور حکومت سے کیے گئے معاہدوں پر مکمل عملدرآمد یقینی بنایا جانا چاہیے۔ انہوں نے میڈیا کا بھی شکریہ ادا کیا، جس نے ان کی آواز عوام تک پہنچائی۔
پریس کانفرنس کے اختتام پر انہوں نے اپنے غریب مگر باحوصلہ کارکنوں کو بلوچستان کی اصل طاقت قرار دیا اور یقین دہانی کرائی کہ گوادر، مکران اور سی پیک سے متاثرہ علاقوں کی بھرپور نمائندگی کی جائے گی۔